سنا تھا ہم نے کبھی یہ
کہ شہر یار تھا اک،
وہ شہر یارِ جہاں
جس کو آرزو تھی، ملے ،
صدف کے دل میں نہاں ،
گوہر تبسم ریز
ستم ہوا کہ اسے
وہ گہر ملے بھی تو یوں
مثال شبنمِ لرزاں ، مثالِ ابرِ رواں
بس ایک پل کو ملے،
دوسرے ہی پل بچھڑے ! ۔۔۔۔
وہ شہریار جہاں،
راستے کی دھول بنا
صبا کے پاوں میں
زنجیر پڑسکی نہ کبھی
کسی بھی پھول کی خوشبو
اسیر ہو نہ سکی ۔۔۔۔
تب اس نے حکم دیا
" ساکنانِ شہر ، سنو ،
ہر ایک شب کی جبیں پر
لکھا ہو میرے لیے
" شبِ عروس ۔۔۔۔ مگر
ہاں ۔۔۔۔ سحر کے ہوتے ہی
مثالِ شمع
ہر اِک نو عروس قتل بھی ہو " ۔۔۔۔
پھر اُس کے حکم کی تعمیل
اس طرح سے ہوئی
وہ شہر
جو تھا، زمیں پر
نمونہ جنت
اسی پہ شہرِ خموشاں کا
ہورہا تھا گُماں
صبا ، زمرد و نیلم
ہر ایک شب کے لیے
بنیں عروس ،
سجے بام و دَر ،
سحر ہوتے ،
ہوئے تھے قتل
چراغوں کی روشنی کی طرح !۔۔۔۔
وہ شاہزاد تھی ،
جس نے کیا اسیر اسے
ہر ایک رات ،
نئی ایک داستاں کہہ کر
وہ شہریار ہی تھا ،
جو ہوا اسیر کبھی
یہ شہریار، وہ ہیں
جن کی آستیں کا لہو
پکارتا ہے کہ قاتل ہو تم
مسیح نہیں ،
نہ جانے کتنے شب و روز کٹ گئے
کہ یہ سب ،
کہانیاں بھی سناتے ہی
قتلِ عام کے ساتھ !!
کہ شہر یار تھا اک،
وہ شہر یارِ جہاں
جس کو آرزو تھی، ملے ،
صدف کے دل میں نہاں ،
گوہر تبسم ریز
ستم ہوا کہ اسے
وہ گہر ملے بھی تو یوں
مثال شبنمِ لرزاں ، مثالِ ابرِ رواں
بس ایک پل کو ملے،
دوسرے ہی پل بچھڑے ! ۔۔۔۔
وہ شہریار جہاں،
راستے کی دھول بنا
صبا کے پاوں میں
زنجیر پڑسکی نہ کبھی
کسی بھی پھول کی خوشبو
اسیر ہو نہ سکی ۔۔۔۔
تب اس نے حکم دیا
" ساکنانِ شہر ، سنو ،
ہر ایک شب کی جبیں پر
لکھا ہو میرے لیے
" شبِ عروس ۔۔۔۔ مگر
ہاں ۔۔۔۔ سحر کے ہوتے ہی
مثالِ شمع
ہر اِک نو عروس قتل بھی ہو " ۔۔۔۔
پھر اُس کے حکم کی تعمیل
اس طرح سے ہوئی
وہ شہر
جو تھا، زمیں پر
نمونہ جنت
اسی پہ شہرِ خموشاں کا
ہورہا تھا گُماں
صبا ، زمرد و نیلم
ہر ایک شب کے لیے
بنیں عروس ،
سجے بام و دَر ،
سحر ہوتے ،
ہوئے تھے قتل
چراغوں کی روشنی کی طرح !۔۔۔۔
وہ شاہزاد تھی ،
جس نے کیا اسیر اسے
ہر ایک رات ،
نئی ایک داستاں کہہ کر
وہ شہریار ہی تھا ،
جو ہوا اسیر کبھی
یہ شہریار، وہ ہیں
جن کی آستیں کا لہو
پکارتا ہے کہ قاتل ہو تم
مسیح نہیں ،
نہ جانے کتنے شب و روز کٹ گئے
کہ یہ سب ،
کہانیاں بھی سناتے ہی
قتلِ عام کے ساتھ !!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں