غزلیں
- دشمن کو بھی یار بنا کر دیکھیں گے
- دل جلا پھر چراغ جلتے ہی
- کیا ہُوا پوچھیں تو وہ کچھ بھی نہیں کہتی ہے
- خود اپنے شکنجے میں گرفتار نہ ہونا
- یہ نہیں کہ فقط در بہ در گئے ہوتے
- شعلے بُجھ جائیں گے چنگاری دبی رہ جائے گی
- کوئی سایہ نہ خوشبو مگر دیکھنا
- لہجے کو پھول لفظ کو جُگنو اگر کریں
- آئینہ مانگوں تو کیسی وہ سزا دیتا ہے
- موسموں کی طرح دل سے مرے جانے والا
- وہ چِنگاریوں کو ہوا دے گیا
- اب یہ حسرت ہے کہ منظر کوئی ایسا دیکھوں
- میں سوچوں تجھ کو اور سوچا نہ جائے
- ان پرندوں سے سبق سیکھا کرو
- اس طرف آگ کا دریا ہے اُدھر کھائی ہے
- جن سے آواز کا چہرہ نہیں دیکھا جاتا
- کاغذ اچھال کر ذرا تیور ہوا کے دیکھ
- مِرا دوسرا رُخ دکھادے مجھے
- دریا سے بچانا نہ سمندر سے بچانا
- نیند کب اچھی لگی کب جاگنا اچھا لگا
- خُشک دریاؤں کو پانی دے گیا
- اب جو ملتا ہے تو وہ شخص کھنڈر لگتا ہے
- کاغذوں کے ٹکڑوں سے آئینہ بناتے ہیں
- میرے احساس کی نکہت مرے فن کی خوشبو
- شام کا رنگ جو گہرا ہوا آئینے میں
- اکیلی پھرتی ہے آنکھوں میں لے کے پانی شام
- بھیگنے کا اِک مسلسل سلسلہ بارش میں ہے
- کہیں خیال کہیں خواب سا ملا دَریا
- اپنے کمرے میں بیٹھا رہا کورا کاغذ
- کہیں چراغ کہیں آئینہ بنا اخبار
- ہم سے کیا پوچھتے ہو کیا ہے رات
- آکے پلکوں پر تھم گیا جُگنو
- پروں کو اب نہ پھیلاؤ پرندو
- دیکھتا ہے جب بھی پتھر آئینہ
- پاگل سی ہوا ڈھلتی ہوئی شام سمندر
- اکیلا گھر ہے کیوں رہتے ہو کیا دیتی ہیں دیواریں
- آئینہ بن کے بات کرتی دھوپ
نظمیں
- سفر ہے شرط ۔۔۔۔
- زخمی سڑک
- شہریارِ امروز
- صدائے طُور
- وقت
- وہ قاصد مر چکا ہے
- ریس
- کھل جا سم سم
- پرندو، چلو لوٹ آؤ
- اپنے آپ سے ایک مکالمہ
- ایک نظم - زمین والوں کے نام
- وہ ایسا آئینہ تھا
- بولتی لکیریں
- کلام رو رہا ہے
- ایک نظم - انور رشید کے نام
- تمہاری گفتگو ہوگی چراغوں سے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں