پاگل سی ہوا ، ڈھلتی ہوئی شام ، سمندر |
ایسے میں کہیں لے نہ تِرا نام ، سمندر |
ویرانوں میں بھٹکیں کہ تِرے شہر میں ٹھہریں |
آنکھوں میں در آتا ہے سر شام سمندر |
ہے تازہ ہواوں پہ یہ الزام کہ چُپ ہیں |
کچھ ایسا ہی تُجھ پر بھی ہے الزام ، سمندر |
کاغذ کی بنی ناو میں بیٹھے ہوئے ہم لوگ |
گِرداب سے نکلے ہیں ، ذرا تھام ، سمندر |
دے اِذن کہ پانی پہ مکاں اپنے بنائیں |
اب ساری زمیں ہوگئی نیلام ، سمندر |
سنتے ہیں وہاں عکس اُبھرتے ہیں بدن کے |
چلتے ہیں چلو ہم بھی سرِ شام ، سمندر |
کس وقت زمیں میرے قدم لینے لگی ہے |
جب رہ گیا مٹی سے بس اک گام ، سمندر |
تو عکسِ فلک ہے تو فلک آئینہ تیرا |
اِک رقصِ مُسلسل ہے ترا کام ، سمندر |
چڑھتے ہوئے دریا ہوں کہ سوکھی ہوئی نہریں |
رکھتے ہیں تِرے سر ، سبھی الزام ، سمندر |
کیا بھر گئے پانی سے لبالب کہ متین آج |
دینے لگے صحراوں کو دُشنام ، سمندر |
2017-04-03
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں