اکیلا گھر ہے ، کیوں رہتے ہو ، کیا دیتی ہیں دیواریں |
یہاں تو ہنسنے والوں کو ، رُلادیتی ہیں دیواریں |
انہیں بھی اپنی تنہائی کا جب احساس ہوتا ہے |
تو گہری نیند سے مجھ کو ، جگادیتی ہیں دیواریں |
بجھے ماضی کا کِھلتے حال سے رشتہ عجب دیکھا |
کھنڈر خاموش ہیں لیکن صدا دیتی ہیں دیواریں |
ہوا کے زخم سہہ کر بارشوں کی چوٹ کھا کھاکر |
چھتوں کو، روزنوں کو آسرا دیتی ہیں دیواریں |
رہوں گھر میں تو میرے سر پہ چادر تان دیتی ہیں |
سفر پر جب نکلتا ہوں ، دعا دیتی ہیں دیواریں |
جو چلنا ہی نہ چاہے ، روک لیتے ہیں اسے ذرے |
بگولوں کو سفر میں راستہ دیتی ہیں دیواریں |
وہ ساری گفتگو جو بند کمروں ہی میں ہوتی ہے |
میں جب باہر سے آتا ہوں سنادیتی ہیں دیواریں |
اترتی اور چڑھتی دھوپ کی پہچان ہے ان کو |
ابھی دن کتنا باقی ہے بتادیتی ہیں دیواریں |
متین اس چلچلاتی دھوپ میں سایہ انہی سے ہے |
میں جب بھی ٹوٹتا ہوں ، حوصلہ دیتی ہیں دیواریں |
2017-04-02
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں