| آئینہ بن کے بات کرتی دھوپ |
| دِل کی دیوار پر برستی دھوپ |
| میرے اندر بھی دھوپ کا عالم |
| میرے باہر بھی رقص کرتی دھوپ |
| اس کی آنکھوں میں خیمہ زن دیکھی |
| ایک اِک بُوند کو ترستی دھوپ |
| آئینہ دیکھ کر ٹِھٹکتی ہے |
| گھر کی دیوار سے اُترتی دھوپ |
| طاقِ ماضی میں چُھپ کے بیٹھی ہے |
| خوف سے کانپتی ، لرزتی دھوپ |
| صبح کو شام سے ملاتی ہے |
| رقص کرتی ہوئی ، تِھرکتی دھوپ |
| خواب ہے یا سراب ہے کیا ہے |
| اپنے ہی عکس کو ترستی دھوپ |
| عکس آنکھوں میں چھوڑجاتی ہے |
| سامنے سے مرے گزرتی دھوپ |
| آئینہ بھی ہے اور سمندر بھی |
| میرے احساس میں اُترتی دھوپ |
| میں اس کی زباں سمجھتا ہوں |
| جب بھی مجھ سے ہے بات کرتی دھوپ |
| اپنا لہجہ متین ایسا ہے |
| جیسے دریاؤں میں اُترتی دھوپ ! |
2017-04-01
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں