پہلے بن جاتے تھے جس کے واسطے پیکر چراغ |
مجھ سے نابینا کو ہیں، اب راہ کے پتھر، چراغ |
کیوں کسی کو ڈھونڈتے ہو ہاتھ میں لے کر چراغ |
تم اگر سورج ہو تو آئیں گے خود چل کر چراغ |
دیکھنا اُس کو اگر ہے ان چراغوں کو بجھاؤ |
کیسے دیکھو گے اُسے تم سامنے رکھ کر چراغ |
جن کی قسمت میں نہ سورج ہے نہ کوئی چاند ہے |
دُھول اُن کے واسطے ہے آئینہ، ٹھوکر چراغ |
اِک اِنہی سے روشنی ملتی ہے مجھ کو راہ بھی |
ہاتھ میں میرے نہیں یہ بادہ و ساغر چراغ |
اب جو لوٹا ہوں تو سب حیرت سے تکتے ہیں مجھے |
جام و مینا، گنبد و محراب و بام و دَر، چراغ |
وہ جو سورج ہیں مگر جن کے گھروں میں رات ہے |
ہنس لیا کرتے ہیں اُن کے حال پر اکثر، چراغ |
شب تو اندھی ہے، رہے گی عمر بھر اندھی متین |
یا جلوں میں شام سے یا پھر جلیں دن بھر چراغ |
2017-03-12
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں