| اکیلا گھر ہے کیوں رہتے ہو، کیا دیتی ہیں دیواریں |
| یہاں تو ہنسنے والوں کو رُلا دیتی ہیں دیواریں |
| انہیں بھی اپنی تنہائی کا جب احساس ہوتا ہے |
| تو گہری نیند سے مجھ کو جگا دیتی ہیں دیواریں |
| بجھے ماضی کا کھلتے حال سے رشتہ عجب دیکھا |
| کھنڈر خاموش ہیں لیکن صدا دیتی ہیں دیواریں |
| جو چلنا ہی نہ چاہے روک لیتے ہیں اُسے ذرے |
| سمندر کو سفر میں راستہ دیتی ہیں دیواریں |
| ہوا کے زخم سہہ کر، بارشوں کی چوٹ کھا کھا کر |
| چھتوں کو روزنوں کو آسرا دیتی ہیں دیواریں |
| اُترتی اور چڑھتی دُھوپ کی پہچان ہے اِن کو |
| ابھی دِن کتنا باقی ہے، دکھا دیتی ہیں دیواریں |
| وہ ساری گفتگو جو بند کمروں ہی میں ہوتی ہے |
| میں جب باہر سے آتا ہوں، سنا دیتی ہیں دیواریں |
2017-03-11
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)

غیاث متین کی مشہور غزل ہے
جواب دیںحذف کریں