| زمیں کے ساتھ فلک کے سفر میں ہم بھی ہیں |
| قفس نصیب سہی بال و پر میں ہم بھی ہیں |
| وہیں سے لوٹ گئی راستوں کی تنہائی |
| جہاں پہ اُس نے یہ جانا سفر میں ہم بھی ہیں |
| تو وہ شجر، جو سدا برگ و بار دیتا ہے |
| مثال آب نہاں اِس شجر میں ہم بھی ہیں |
| جسے کہیں سے سمندر نے لا کے پھینک دیا |
| تمہارے ساتھ اِک ایسے ہی گھر میں ہم بھی ہیں |
| کتاب تھے تو پڑھے جا سکے نہ دنیا سے |
| لو اب چراغ ہوئے رہ گزر میں ہم بھی ہیں |
| خیال آگ ہے، شعلہ ہے فکر، لو، الفاظ |
| یہ سب ہنر ہیں تو پھر اس ہنر میں ہم بھی ہیں |
| متین شہر بھی صحرا نژاد ہے اتنا |
| کہ سنگ و خشت میں دیوار و در میں ہم بھی ہیں |
2017-03-10
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں