سفر ہے شرط ۔۔۔۔
(پاکستانی شاعروں ، ادیبوں اور دوستوں کی نذر)
وہ کون تھے ؟
سحاب تھے ، کتاب تھے ،
مِرے ہر اِک سوال کا
جواب تھے ،
کہ خواب تھے،
وہ کون تھے؟
ستارے تھے،
کہ آسماں سے روشنی لیے ہوئے
زمیں پہ آگئے تھے ،
میرے واسطے
وہ کون تھے ؟
وہ ہم قلم ، وہ ہم زباں
وہ ہم یقیں ، وہ ہم گماں
وہ ہم خیال وہم بیاں
وہ یوں ملے
کہ جیسے حافظے سے یاد ،
جیسے تشنہ مٹیوں سے بارشیں
کہ جیسے شام کو پرند
گھونسلوں سے جا ملیں
کہ جیسے ریگ زار کو
اماں ملے حیات کی
کہ جیسے میری ذات کو
اذاں ملی ہو ذات کی
وہ یوں ملے ، ۔۔۔۔
تُو اے زمیں و آسماں کے نور
میرے مُدعا
میں خواب دیکھتا ہوں ،
ڈھونڈتا بھی ہوں بشارتیں
اُنہیں بھی ،
خواب دیکھنے
نظر ملے ،
یقیں تراشنے ، گماں سے بھاگنے
ہنر ملے ، سفر ملے
وہ ظلم ہو کہ خوف ہو
وہ زخم ہو کہ چوٹ ہو
عذاب یا عتاب ہو
انہیں بچائے رکھ
تُو اے میرے خدا
میں جب ملوں ، تو یوں ملوں
وہ جب ملیں ، تو یوں ملیں
کہ جیسے صبح ، شام سے
کوئی خود اپنے نام سے ،
کہ جیسے دھوپ ، چھاوں سے
غریبِ شہر ، گاؤں سے
کہ جیسے لب ، دُعاوں سے
وہ یوں ملیں
میں یوں ملوں
میرے خدا،
ہے یہ دعا
یہی دُعا
(پاکستانی شاعروں ، ادیبوں اور دوستوں کی نذر)
وہ کون تھے ؟
سحاب تھے ، کتاب تھے ،
مِرے ہر اِک سوال کا
جواب تھے ،
کہ خواب تھے،
وہ کون تھے؟
ستارے تھے،
کہ آسماں سے روشنی لیے ہوئے
زمیں پہ آگئے تھے ،
میرے واسطے
وہ کون تھے ؟
وہ ہم قلم ، وہ ہم زباں
وہ ہم یقیں ، وہ ہم گماں
وہ ہم خیال وہم بیاں
وہ یوں ملے
کہ جیسے حافظے سے یاد ،
جیسے تشنہ مٹیوں سے بارشیں
کہ جیسے شام کو پرند
گھونسلوں سے جا ملیں
کہ جیسے ریگ زار کو
اماں ملے حیات کی
کہ جیسے میری ذات کو
اذاں ملی ہو ذات کی
وہ یوں ملے ، ۔۔۔۔
تُو اے زمیں و آسماں کے نور
میرے مُدعا
میں خواب دیکھتا ہوں ،
ڈھونڈتا بھی ہوں بشارتیں
اُنہیں بھی ،
خواب دیکھنے
نظر ملے ،
یقیں تراشنے ، گماں سے بھاگنے
ہنر ملے ، سفر ملے
وہ ظلم ہو کہ خوف ہو
وہ زخم ہو کہ چوٹ ہو
عذاب یا عتاب ہو
انہیں بچائے رکھ
تُو اے میرے خدا
میں جب ملوں ، تو یوں ملوں
وہ جب ملیں ، تو یوں ملیں
کہ جیسے صبح ، شام سے
کوئی خود اپنے نام سے ،
کہ جیسے دھوپ ، چھاوں سے
غریبِ شہر ، گاؤں سے
کہ جیسے لب ، دُعاوں سے
وہ یوں ملیں
میں یوں ملوں
میرے خدا،
ہے یہ دعا
یہی دُعا
بہترین فکری نظم ہے واہ۔ سرمد حسین (لاہور)
جواب دیںحذف کریں