پرندے،
رات کی شاخوں پہ بیٹھے ہیں
پروں میں
اپنی چونچوں کو دبائے ،
اونگھتے جاتے ہیں
اور یہ سوچتے ہیں
وہ قاصد ،
جو گیا تھا،
صبح کا چہرہ
کہیں سے مانگ کر لانے ،
ابھی تک لوٹ کر آیا نہیں ہے ! ۔۔۔۔
وہ قاصد ، صبح کے ہمراہ ،
کب آئے گا
کب اس آسماں کے
زرد رخساروں پہ سرخی دوڑ جائے گی
پرندے،
اونگھتے جاتے ہیں
اور یہ سوچتے ہیں
انہیں مُژدہ ۔۔۔۔
وہ قاصد،
مرچکا ہے !
انہیں مژدہ ۔۔۔۔
کہ ان کے پر سلامت ہیں
وہ اتریں
رات کی شاخوں سے اتریں،
خلاؤں کے سمندر پر چلیں
اور صبح کو
اپنے پروں سے
باندھ کر لائیں ! ۔۔۔۔
رات کی شاخوں پہ بیٹھے ہیں
پروں میں
اپنی چونچوں کو دبائے ،
اونگھتے جاتے ہیں
اور یہ سوچتے ہیں
وہ قاصد ،
جو گیا تھا،
صبح کا چہرہ
کہیں سے مانگ کر لانے ،
ابھی تک لوٹ کر آیا نہیں ہے ! ۔۔۔۔
وہ قاصد ، صبح کے ہمراہ ،
کب آئے گا
کب اس آسماں کے
زرد رخساروں پہ سرخی دوڑ جائے گی
پرندے،
اونگھتے جاتے ہیں
اور یہ سوچتے ہیں
انہیں مُژدہ ۔۔۔۔
وہ قاصد،
مرچکا ہے !
انہیں مژدہ ۔۔۔۔
کہ ان کے پر سلامت ہیں
وہ اتریں
رات کی شاخوں سے اتریں،
خلاؤں کے سمندر پر چلیں
اور صبح کو
اپنے پروں سے
باندھ کر لائیں ! ۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں