آسماں کے زوال سے پہلے - Ghyas Mateen | غیاث متین | Urdu_Poetry | Ghazals | Nazms | Official website

2017-01-03

آسماں کے زوال سے پہلے

روشنی کی سیڑھیوں سے
جو اُترتی تھی کبھی
کتابوں سے نکل کر
بھٹکتی ہے وہی آواز اب
گر پہاڑوں پر اُترتا یہ کلام
میں پگھل کر موم ہوجاتے
”میں“ اگر چاہوں تو پھر
سامنے کی اُس پہاڑی کی کسی چٹان سے
ایک زندہ اونٹنی نکلے
نیل میں ایک راستہ بن جائے
نیل کو خط لکھنے والا
اب نہیں تم میں، مگر
تمہاری آنکھ کی پتلی میں پھرتی ہے
ابھی تک
وہ بستی جو زمیں سے مل گئی تھی
ذہن کے،
بند دروازوں پہ دستک دے رہے ہیں،
یدبیضا، عصا، گلزار، کشتی، گرم بستر
اور وہ ہلتی ہوئی زنجیر

یہ سچ ہے
میں تماشہ بیں ہوں لیکن
تم تماشہ کیوں بنے ہو؟
رات کے اندھے کنویں میں جھانک کر دیکھو
تو میں ہوں
صبح کی آنکھوں میں میرا نام لکھا ہے
زمینوں آسمانوں کی قسم ہے
دیکھتے ہی دیکھتے
سارے پہاڑ اُڑنے لگیں گے
اور سورج کو لپیٹا جائے گا
تب اپنے کھیت تم کیسے بچاؤ گے؟
زمیں کی آخری ہچکی سے پہلے
آسماں گرنے لگا ہے
اسے اپنے سروں پر اب سنبھالو!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں