ہم خود اپنے میں یوں تفریق ہوتے ہیں
کہ دن،
ڈھونڈتا پھرتا ہے ہم کو
اور شب،
دستکیں دیتی ہوئی تھک سی گئی ہے!
کل جہاں، صحرا کی ننگی دھوپ پیتے تھے بدن،
پتھروں کی تیز نوکیلی زباں،
عمر کے اِک پل کو،
کاٹتی تھی
وہ ہمیں تھے،
جو زمیں کو پیٹھ پر لادے ہوئے چلتے رہے تھے!
آج اُڑنا سیکھ کر،
یہ بھول بیٹھے
اِک پرندے ہی نے ہم کو،
عقل سکھلائی تھی کل،
آج کا اخبار ہیں ہم،
کل ہماری سرخیاں،
کون جوڑے گا، کہ اس کے سامنے،
اِک نیا اخبار ہوگا اور اس کی سرخیاں
نیند سے بوجھل زمیں پر
کون کیا کیا کررہا ہے
کس سے پوچھیں؟
دوسروں کے درمیاں لٹکے ہوئے
کاش ہم سب
اپنے اپنے نام کے معنی ہی بن جائیں!
کہ دن،
ڈھونڈتا پھرتا ہے ہم کو
اور شب،
دستکیں دیتی ہوئی تھک سی گئی ہے!
کل جہاں، صحرا کی ننگی دھوپ پیتے تھے بدن،
پتھروں کی تیز نوکیلی زباں،
عمر کے اِک پل کو،
کاٹتی تھی
وہ ہمیں تھے،
جو زمیں کو پیٹھ پر لادے ہوئے چلتے رہے تھے!
آج اُڑنا سیکھ کر،
یہ بھول بیٹھے
اِک پرندے ہی نے ہم کو،
عقل سکھلائی تھی کل،
آج کا اخبار ہیں ہم،
کل ہماری سرخیاں،
کون جوڑے گا، کہ اس کے سامنے،
اِک نیا اخبار ہوگا اور اس کی سرخیاں
نیند سے بوجھل زمیں پر
کون کیا کیا کررہا ہے
کس سے پوچھیں؟
دوسروں کے درمیاں لٹکے ہوئے
کاش ہم سب
اپنے اپنے نام کے معنی ہی بن جائیں!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں