سورج کو کیا پتہ ہے کدھر دھوپ چاہئیے |
آنگن بڑا ہے اپنے بھی گھر دھوپ چاہئیے |
آئینے ٹوٹ ٹوٹ کے بکھرے ہیں چار سو |
ڈھونڈیں گے عکس عکس مگر، دھوپ چاہئیے |
بھیگے ہوئے پروں سے تو اُڑنے نہ پائیں گے |
کاٹو نہ اِن پرندوں کے پَر، دُھوپ چاہئیے |
ہم سے دریدہ پیرہن و جاں کے واسطے |
یاقوت چاہئیے نہ گُہر، دُھوپ چاہئیے |
سُورج، نہ جانے کونسی وَادی میں چھپ گیا |
اور چیختی پھرے ہے سحر، دُھوپ چاہئیے |
اِک نیند ہے کہ آنکھ سے لگ کر نکل گئی |
اب رات کا طویل سفر، دُھوپ چاہئیے |
پانی پہ چاہے نقش بنائے کوئی متین |
کاغذ پہ میں بناؤں، مگر دُھوپ چاہئیے |
2017-03-01
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں