درد کے رشتے جہاں بھی جائیے پائندہ ہیں |
جیسے سورج کی شعاعیں، ہر جگہ رقصندہ ہیں |
جسم سے باہر نکل کر آنکھ پھرتی ہی رہی |
اور جب لوٹی تو اس سے خواب کیوں شرمندہ ہیں |
راکھ ہو تو تم اپنے جسموں سے تو ہم ہیں روشنی |
سارے منظر اِک ہماری خاک سے تابندہ ہیں |
سایہ سایہ جانے والو، دُھوپ کے رستے چلو |
تاکہ یہ محسوس ہو جائے ابھی دِل زندہ ہیں |
آفریدہ ہوں خود اپنی آنکھ کے شہتیر کا |
اس لیے میری نگاہوں میں سبھی رخشندہ ہیں |
اپنی آنکھوں میں کتابیں لے کے پھرتا ہوں متین! |
جن کو پڑھ کر آسماں زادے بہت شرمندہ ہیں |
2017-03-02
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں