خواب آنکھوں کی گلی چھوڑ کے جانے نکلے |
ہم اِدھر نیند کی دیوار گرانے نکلے |
دھول رستے کا مقدر ہے تو رستہ کیا ہے |
بس یہی بات زمانے کو بتانے نکلے |
جب پہاڑوں سے ملی داد ہنر کی اپنے |
داستاں ہم بھی سمندر کو سنانے نکلے |
رنگ سے رنگ جدا ہونے کا منظر دیکھا |
تیرگی اور شفق صرف بہانے نکلے |
جب سمندر پہ چلے ہم تو یہ صحرا چپ تھے |
اب پہاڑی پہ کھڑے ہیں تو بلانے نکلے |
آسماں جس کی زمیں ہے وہ پرندہ ہوں میں |
جانے کیوں لوگ یہاں دام بچھانے نکلے |
کوئی چہرہ نہ دے آواز کسی لَو کو متین |
شام ہوتے ہی چراغوں کو بجھانے نکلے |
2017-03-03
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں