کشتی کے ساتھ وہ بھی گیا، بھولتے ہو کیوں |
ساحل کے آس پاس، سدا، گھومتے ہو کیوں |
اڑ جاؤ شاخ سے کہ وہ موسم نہیں رہا |
سوکھا ہے پیڑ، تیز ہوا، جھولتے ہو کیوں |
آنکھوں میں ہے وہ راستہ کب سے کھلا ہوا |
پلکوں پہ رُک کے اُس کا پتہ، پوچتے ہو کیوں |
منظر بدل نہ جائے کہیں، اتنی دیر میں |
دیکھو سفر تمام ہے اور اُونگھتے ہو کیوں |
ہم کو تو اپنے ہونے پہ شرمندگی سی ہے |
تم کاغذی لباس ہو، یوں پھولتے ہو کیوں |
جنگل میں دفن کرکے جسے آئے ہو متین |
سڑکوں کی رونقوں میں اُسے ڈھونڈتے ہو کیوں |
2017-03-04
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں