آنکھ کی پتلی میں سورج، سر میں کچھ سودا اُگا |
پانیوں میں سرخ پودے، دھوپ میں سایا اُگا |
آسماں کی بھیڑ میں تو اس لیے سوچا گیا |
اس زمیں کی چھاتیوں سے نور کا چشمہ اُگا |
نیند میں چلنے کی عادت، خواب میں لکھنے کا فن |
ایک جیسی بات ہے تو آتش نغمہ اُگا |
میں نے اپنی دونوں آنکھوں میں اُگائے ہیں پہاڑ |
تیری آنکھوں میں سمندر تھا، وہاں صحرا اُگا |
سبزۂ بیگانہ بن کر جی لیا تو کیا جیا |
خود کو بو کر اس زمیں سے اِک نیا چہرا اُگا |
دھوپ جیسے قہقہے ہیں، ریت جیسی بات ہے |
تو اگر غواص ہے تو ریت میں دریا اُگا |
یہ زمیں بوڑھی ہے اس کو پیٹھ سے اپنی اُتار |
آسماں کو جیب میں رکھ لے، نئی دنیا اُگا |
ہم تو خود اظہار ہیں اپنے زمانے کا متین |
بجھ گئے آواز کے شعلے نیا لہجہ اُگا |
2017-03-05
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں