دھوپ کا احساس جانے کیوں اسے ہوتا نہیں |
وقت آوارہ ہے، ٹھنڈی چھاؤں میں سوتا نہیں |
جھوٹ کی دیوار سے لٹکے ہوئے جسموں کے دن |
ہو گئے پورے کہ سچ تو، شب میں بھی سوتا نہیں |
ہم تکا کرتے ہیں کھڑکی سے اترتے چاند کو |
دوڑ کر اس کو پکڑ لیں، یہ کبھی ہوتا نہیں |
دل عجب پتھر ہے پانی سے پگھل جائے کہیں |
اور کبھی جو آگ میں رکھ دیجئے، روتا نہیں |
روشنی پھوٹے قلم کی آنکھ سے کیوں کر متین |
آنسوؤں کے بیج دل میں جب کوئی بوتا نہیں |
2017-03-07
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں