(بشیر بدر کی نذر)
اب جو ملتا ہے تو وہ شخص کھنڈر لگتا ہے |
اُس کی ٹوٹی ہوئی آواز سے ڈر لگتا ہے |
شاخ سے ٹُوٹ کے پھل گِرنے کا موسم آیا |
اب سنبھالے سے نہ سنبھلے گا شجر لگتا ہے |
ریت پر اب جو چمکتے ہیں زمرد کے چراغ |
یہ مری آبلہ پائی کا ثمر لگتا ہے |
اپنی ہی ذات کے اندر کا سفر خُوب سہی |
قاف تا قاف سفر ہو ، تو سفر لگتا ہے |
وقت ، ہونٹوں پر دُعا بن کے لَرزتا ہے متین |
آج کُھل جائے گا وہ بابِ اثر ، لگتا ہے! |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں