| خُشک دریاوں کو پانی دے گیا |
| یاد کا موسم ، نشانی دے گیا |
| دھوپ کے چہرے پہ بارش کی لکیر ، |
| کیسا منظر تھا ، کہانی دے گیا |
| وقت بھی کتنا سِتم ایجاد ہے |
| اپنے گھر کی پاسبانی دے گیا |
| وہ تو آیا تھا ، رُلانے کو مگر |
| عُمر بھر کی شادمانی دے گیا |
| خواب کے سارے پرندے اُڑ گئے |
| وقت ، تعبیریں پُرانی دے گیا |
| زخم پہلے بات کرتے تھے متین |
| کون اِن کو بے زبانی دے گیا! |
2017-04-15
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں