| نیند کب اچھی لگی ، کب جاگنا اچھا لگا |
| میری آنکھوں کو وہی اِک آئینہ اچھا لگا |
| جب بھی بازاروں سے گزروں تو مجھے پہچان کر |
| آئینوں کا میری جانب دیکھنا اچھا لگا |
| جانتے ہیں ’ رنگ اپنا ہے ، نہ پَر اپنے مگر |
| تتلیوں کے پیچھے پیچھے دوڑنا اچھا لگا |
| شہر کب آئے ، کہاں ٹھہرے ہو ، یہ کیا حال ہے |
| اُس کا مجھ کو روک کر یہ پُوچھنا اچھا لگا |
| خُشک پتے ہیں ’ ہوا ان کو اُڑالے جائے گی |
| دشمنوں کو دیکھ کر یہ سوچنا اچھا لگا |
| اس کی آنکھوں میں کچھ ایسی بات تھی جس کے سبب |
| شام ہوتے ہی مجھے گھر لوٹنا اچھا لگا |
| دھوپ ایسی تھی کہ دروازے پر آکر رُک گئی |
| میرے گھر کو بارشوں کا آسرا اچھا لگا |
| رات کاٹو ، اجنبی شہروں میں تو محسوس ہو |
| کیسے ہم کو جنگلوں میں جاگنا اچھا لگا |
| ورنہ منظر ہی کوئی ہوتا نہ پس منظر متین |
| اس زمیں سے آسماں کا فاصلہ اچھا لگا |
2017-04-15
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں