دریا سے بچانا ، نہ سمندر سے بچانا |
دیوار کو ، دیوار کے پتھر سے بچانا |
پانی میں کہیں لاش ، کنارے پہ کھڑے لوگ |
اس شہر کو ایسے کسی منظر سے بچانا |
پوشیدہ جہاں بھی ہے یتیموں کا خزانہ |
مجھ کو اسی دیوار کی ٹھوکر سے بچانا |
اِک کھیل تھا بچپن کا جو باقی ہے ابھی تک |
پتھر کوئی آئے تو اُسے سر سے بچانا |
جس کے در و دیوار پہ آئینے لگے ہیں |
اب مجھ کو بچانا تو اُسی گھر سے بچانا |
یہ دور عجب ہے کہ یہاں سہل نہیں ہے |
جس پیڑ پہ پھل ہوں اُسے پتھر سے بچانا |
اب اپنے خدا سے یہی کہنا ہے متین آج |
مجھ میں جو چھپا ہے مجھے اس شہر سے بچانا |
2017-04-16
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں