
(نذر کمار پاشی )
| کاغذوں کے ٹکڑوں سے آئینہ بناتے ہیں |
| ہم ہیں کیسے دیوانے ، کیا سے کیا بناتے ہیں |
| وہ عَصائے موسٰی تھا ، یہ قلم ہمارا ہے |
| اس سے ہم بھی پانی میں راستہ بناتے ہیں |
| اب ہماری بستی کا حشر بھی وہی ہوگا |
| اب ہمارے بچے بھی زائچہ بناتے ہیں |
| آنکھ ، خواب ، تنہائی ، دھوپ ، ریت ، سناٹا |
| ان پرانی اینٹوں سے گھر نیا بناتے ہیں |
| ہم اُداس موسم کے آخری پرندے ہیں |
| برف زار پر اپنے نقشِ پا ، بناتے ہیں |
| تتلیوں کے پر جیسے ، خواب ہیں متین اپنے |
| ہاتھ بھی نہیں آتے ، سلسلہ بناتے ہیں ! |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں