اب یہ حسرت ہے کہ منظر کوئی ایسا دیکھوں |
شام ہوجائے تو سورج کو نکلتا دیکھو |
خواب دہلیز پر آجائیں تو تعبیر کہوں |
ورنہ اِک قطرہ بے آب میں دریا دیکھو |
چھاوں جتنی تھی مُقدر میں ، سمیٹی، اب تو |
دھوپ کے شہر میں دیوار نہ سایہ دیکھو |
پھر وہیں سے میں سُناوں گا کہانی اپنی |
ہاں مگر شرط یہی ہے ، تجھے تنہا دیکھوں |
موسم گُل ہو کہ پت جھڑ ہو ، کوئی رُت ہو متین |
شاخ در شاخ پرندوں کو چہکتا دیکھوں |
2017-04-21
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں