میں سوچوں تجھ کو اور سوچا نہ جائے |
کوئی دن عمر کا ، ایسا نہ جائے |
سمندر ، دھوپ سے لپٹا ہوا ہے |
سمندر کی طرف دیکھا نہ جائے |
وہاں سنتا ہے میری بات کوئی |
جہاں آواز کا سایہ نہ جائے |
اسی سے دل کی سیرابی ہے لوگ |
نکل کر آنکھ سے دریا نہ جائے |
متین اس شہرِ نا پُرساں سے دیکھو |
کہیں چاہوں بھی تو جایا نہ جائے |
2017-04-21
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں