وہ چِنگاریوں کو ہوا دے گیا |
سمندر تھا لیکن یہ کیا دے گیا |
میں جلتے چراغوں کی سانسوں میں ہوں |
کوئی جاگنے کی دُعا دے گیا |
شکاری بڑا شعبدہ باز تھا |
پرندوں کو اِک آئینہ دے گیا |
میں مقطع پر پہنچا تو وہ رو پڑا |
مجھے شاعری کا صلہ دے گیا |
بڑی دھوپ تھی گھر کے باہر متین |
مگر ، وہ شجر ، آسرا دے گیا |
2017-04-22
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں