اپنے کمرے میں بیٹھا رہا کورا کاغذ |
آئینہ دیکھ کے روتا رہا کورا کاغذ |
جب کئی چہرے اسے دیکھ کے مُنہ پھیر گئے |
اپنے اندر ہی سُلگتا رہا کورا کاغذ |
گھر میں جب اس کے لیے کوئی جگہ ہی نہ رہی |
بادلوں کی طرح اُڑتا رہا کورا کاغذ |
کوئی آئے ، کوئی دیکھے کہ یہاں صدیوں سے |
اپنی ہی آگ میں جلتا رہا ، کورا کاغذ |
کورے کاغذ کا کہاں تک لکھوں احوال متین |
سانس لینے کو ، ترستا رہا کورا کاغذ |
2017-04-08
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں