کہیں خیال ، کہیں خواب سا ، ، ملا دَریا |
مِرے وجود کا اظہار بن گیا دریا |
ندی ، سُکون سے مَحوِ سفر رہی لیکن |
قدم قدم پہ مگر ہانپتا رہا دریا |
اُسے میں اپنے خیالوں میں قید کر نہ سکا |
مرے خیال سے آگے نکل گیا ’ دریا |
ندی نے مُڑکے سمندر کی سمت دیکھا تھا |
تو اس کی راہ میں دیوار بن گیا ، دریا |
بڑا غرور تھا اپنے وجود پر اس کو |
ملا جو آکے سمندر سے کھوگیا ، دریا |
وہ شخص ریت میں ، منہ چھپائے بیٹھا ہے |
متین اُس کو ڈبودے نہ ریت کا دریا |
2017-04-09
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں