| دل جلا پھر ، چراغ جلتے ہی |
| اپنے دکھ بھی ہیں شام جیسے ہی |
| کتنے چہرے اُتر گئے دیکھو |
| دھوپ دیوار سے اُترتے ہی |
| موسموں کا پتہ چلا مجھ کو |
| رنگ دیوار کا بدلتے ہی |
| ہم نے دریا میں راستہ پایا |
| اِک تِرا نام کے چلتے ہی |
| زندگی کتنی خوبصورت ہے |
| ہاں مگر ، سانس کے اکھڑتے ہی |
| میر کی یاد آگئی ہم کو |
| صبح کرتے ہی شام کرتے ہی |
| ایک زندہ مثال تھی نہ رہی |
| ہائے اس آدمی کے مرتے ہی |
| ٹوٹنا اپنے دل کا یاد آیا |
| آئینہ ٹوٹ کر بکھرتے ہی |
| تیرا لہجہ متین ایسا ہے |
| پھول جھڑتے ہیں بات کرتے ہی |
2017-04-29
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں