| کیا ہُوا، پوچھیں ، تو وہ ، کچھ بھی نہیں کہتی ہے |
| دُھوپ ، دیوار کے سائے میں کھڑی روتی ہے |
| ریت آنکھوں میں لیے، جاگتے رہنے والے |
| گھر کی دہلیز ، تِرا نام لیا کرتی ہے |
| تم نئے آئے ہو ، اس شہر میں ، اتنا سُن لو |
| سائباں اڑتے ہیں ، جب تیز ہوا چلتی ہے |
| آسمانوں میں ، پرندوں کی طرح اڑتا ہوں |
| میرے اس خواب کی تعبیر بتا، کیسی ہے |
| کم سے کم دھوپ میں سایہ تو مجھے ملتا ہے |
| ان درختوں سے وہ دیوار بہت اچھی ہے |
| اس کا لہجہ ہے کہ پھولوں سے ٹپکتی شبنم |
| بات کی بات ہے سرگوشی کی سرگوشی ہے |
| تم سمجھتے ہو ، بجھاتی ہے چراغوں کو ہوا |
| ہم یہ کہتے ہیں ، چراغوں میں ہوا جلتی ہے |
| تم نے پوچھا ہے تو بس تم کو بتاتا ہوں متین |
| صبح ہوتی ہے کہیں ، شام کہیں ہوتی ہے |
2017-04-28
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں