اس طرف آگ کا دریا ہے اُدھر کھائی ہے |
ہم نے بھی پار اُترنے کی قسم کھائی ہے |
اپنے کمرے سے نکل کر ذرا دیکھو تو سہی |
دھوپ ، دیوار سے آنگن میں اُتر آئی ہے |
جن چراغوں کا تِرے نام سے رشتہ ہی نہیں |
ان چراغوں کی زمانے میں پذیرائی ہے |
رات کی شاخ سے لٹکے ہیں ستاروں کے چراغ |
گھر کی دہلیز پر بیٹھی ہوئی تنہائی ہے |
ایسا موسم ہے کہ بے برگ و ثمر ہیں اشجار |
کیوں ہوا شور مچانے کو چلی آتی ہے |
دھوپ کے شہر میں بادل کو ترسنے والو |
آج بارش نہیں ہوگی یہ خبر آئی ہے |
جس پہ دیوار کے اُس پار کا منظر نہ کُھلے |
ایسی بینائی بھی کس کام کی بینائی ہے |
اپنے اندر کا یہ عالم بھی عجب عالم ہے |
بھیڑ کی بھیڑ ہے ، تنہائی کی تنہائی ہے |
مجھ پہ الزام ہے آہستہ خرامی کا متین |
تیز چلتا ہوں تو احباب کو رُسوائی ہے |
2017-04-19
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں