کاغذ اچھال کر ذرا تیور ہوا کے دیکھ |
کشتی کو پھر ہوا کے مخالف چلا کے دیکھ |
منظر کی جستجو ہے تو باہر نکل کے آ |
پھل چاہیئے تو پیڑ ، ذرا سا ہِلاکے دیکھ |
دیوار و در نصیب سے ملتے ہیں ورنہ یاں |
سبزے کو ہم ترستے ہیں ’ شہروں میں آکے دیکھ |
پانی پہ تیرتا نظر آجائے گا کوئی |
آنکھوں کی پُتلیوں میں کسی کو بٹھاکے دیکھ |
سانپوں کو پالنے کا ہنر ہے ، یہ شاعری |
میرا کلام ، نام سے اپنے سُنا کے دیکھ |
رُک جائے وقت پھول سے چہروں کے درمیاں |
بچوں کے ساتھ شام کو پکنک مناکے دیکھ |
بچپن سے جس کا ساتھ رہا سانس کی طرح |
ڈولی میں اپنے ہاتھ سے اس کو بٹھاکے دیکھ |
آئینہ بات کرتا ہے اپنے ہی عکس سے |
صورت کو اپنی اس کے مقابل تو لاکے دیکھ |
اُڑتے پرند ’ ڈوبتا سورج ، پِگھلتی ریت |
دیوارِ جاں پہ نقش اِک ایسا بناکے دیکھ |
خوش رنگ و خوش لباس و خوش آواز خوش ادا |
ہاتھوں سے اپنے ، ایسا پرندہ، اڑاکے دیکھ |
خوشبو ، مثالِ برق ، چمک جائے گی متین! |
لہجے کے پھول ، شاخِ زباں پر کھلاکے دیکھ |
2017-04-18
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں