| شعلے بُجھ جائیں گے ، چنگاری دبی رہ جائے گی |
| قہقہوں کے بعد ، آنکھوں میں نمی رہ جائے گی |
| پانیوں میں عکس ، سورج کا پگھلتا جائے گا |
| شام آنکھوں میں لیے آنسو ، کھڑی رہ جائے گی |
| اِک صدائے بے کراں ہے زندگی ، اور اُس کے بعد |
| خامشِی ہی خامشِی ہی خامشِی رہ جائے گی |
| گفتگو دیوار سے کرتے رہو گے تم اگر ، |
| دھوپ دروازے پر رُک کر سوچتی رہ جائے گی |
| وقت ، دریا پار کرجائے گا ہنستے ، کھیلتے |
| تیرے میرے درمیاں، دیوار سی رہ جائے گی |
| گرتی دیواروں سے لگ کر مت کھڑے رہنا متین |
| ورنہ ملبے میں دبی اِک چیح سی رہ جائے گی |
2017-04-26
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں