اپنی بات - این گوپی - Ghyas Mateen | غیاث متین | Urdu_Poetry | Ghazals | Nazms | Official website

2018-08-18

اپنی بات - این گوپی

شاعری میری فطری صفت امتیازی ہے اور یہ میرے لیے لازمی ہے ۔ ظاہر ہے بعض اوقات غیر ارادی طورپر اس میں رکاوٹ بھی آجاتی ہے ۔ جب شاعری مجھ سے گریز کرتی ہے تو میں بے چین ہوجاتا ہوں۔
"انسان" جس کا میں تصور کرتا ہوں میری شاعری کا مرکز ہے ۔ میری ایک نظم کے کچھ اشعار پیش ہیں :
"جب تم ایک انسان کو چھوتے ہو
تو اس کا لمس محسوس کرتے ہو
شاعری کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے
رگوں میں بہنے والے لہو کے پھولوں کی ملاطفت
تمھیں خود بہ خود محسوس ہونی چاہیے "
وہ ایسا دور تھاجب تلگو میدان ادب میں متعدد تحریکیں زور و شور سے کارفرما تھیں ‘ اُن کے بنیادی عناصرکو اپناکر بہ حیثیت شاعر اپنی شناخت اور انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے میں ایک جذبۂ ارتقا کے ساتھ بڑا ہوا ۔ ایک طرح سے میری شاعری امتزاج کی علامت ہے ۔ امتزاج کی قوت حیات سے نمودار ہونے والا میری شاعری کا انسان ثابت قدم رہا ہے ۔ وہ تحکمانہ تصورات اور مطلق العنانیت کی شدت سے مخالفت کرتا ہے ۔ اس کی حد نگاہ دیسی اور مقامی خصوصیات ہی کا نہیں عالمی ابعاد کا بھی احاطہ کرتی ہے ۔ اس نے ظلم وبہیمیت کے خلاف مستقل جنگ کا اعلان کر رکھا ہے ۔ کاروباری تہذیب کے ماحول میں لوگوں کو درپیش خطرات کا پورا اندازہ لگاکر میرے انسان نے انھیں آگاہ کردیا ہے ۔ اس کے خیال میں شاعری ایک ایسی جنگ کا اعلان ہے جو اندرون میں بھی لڑی جاتی ہے اور خارج میں بھی ۔ اس پس منظر میں میری شاعری استغراق اور پرواز کے عمل میں امتزاج کے حصول میں کام یاب رہی ہے ۔ میں کسی مخصوص ٹھپے کو پسند نہیں کرتا۔ تاہم اگر مجھے ترقی پسند انسان دوستی کے شاعر کا نام دیا جائے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ اگر مجھے امتزاجی نقطہ ¿ نظرکا حامل شاعر قرار دیا جائے تو بھی مجھے کوئی دکھ نہیں ہوگا۔
میرے خیال میں شاعری ایک دردناک کیمیاوی عمل کا نتیجہ ہے ۔ درد ہم اس وقت محسوس کرتے ہیں جب پے چیدہ انسانی کردار میں مستغرق ہوتے ہیں ، اس کے اسرار کی تلاش میں تیرتے اور ابھرتے ہیں ۔ میں شاعری کو چھلنی اور فلٹر سے تشبیہہ دیتا ہوں ۔ ایک نظم میں میں نے کہا ہے :
"میری شاعری ایک لتمسی کاغذ ہے
جو تجربے کے عجیب و غریب رنگ اختیار کرلیتا ہے "
میں ادب پر کسی قسم کی بندش کو برداشت نہیں کرسکتا ۔ شاعری کے میدان میں مقابلے کے عنصر کو بھی میں پسند نہیں کرتا۔ میرے لیے شاعری کلمہ درازی نہیں ہے ۔ میں منکسرانہ محسوس کرتا ہوں کہ میری ہرایک نظم اپنے تجربات کی مکمل روداد پیش کرنے کی کوشش میں شکست سے دوچار ہے۔ چناں چہ میں کہتا ہوں :
"میری نظمیں خون کے وہ دھبے ہیں
جن سے تجربات کے اظہار کی گھمسان لڑائی میں
ان کی شکست فاش کا پتہ چلتا ہے "
اس لیے میں اپنی ہرایک نظم کو "امتحان داخلہ" سمجھتا ہوں "مکرر ارشاد " اور "پھر سے" کی تعمیل سمجھتا ہوں ۔ کوئی بھی نظم زندگی کے پورے سرگم ‘ اس کی ساری وسعت کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ اس نظم کے لیے جس کا لکھنا میرے لیے اشد ضروری ہے مجھے ساری زندگی ایک طرح کی پرائشچت کرنی ہوگی۔ اس وقت تک یہ جدوجہد جاری رہے گی ۔ میں ایک متحرک ، خانہ بہ دوش ، مسافر شاعر ہوں۔ سفر کے دوران ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھرا ہوا ، میں اپنے اندرون میں داخل ہوجاتا ہوں ۔ اس ہفت خواں کو طے کرنے کے دوران میری کلیتاً قلب ِماہیت ہوجاتی ہے ، میں شاعر بن جاتا ہوں ، انسان کے درجے پر پہنچ جاتا ہوں ۔ میری ایک نظم کے الفاظ ہیں :
"چاہے تراش کی طرح کی آرائشی اشیا میں کیوں نہ تبدیل کردی جائے ،
لکڑی اپنی جنگل کی خوبو سے محروم نہیں ہوگی
بے شک میری نظمیں مجھے انسان ہی کے سانچے میں ڈھالیں گی "۔
ایک اور نظم میں میں نے اظہارِ مطلب کچھ اس طرح کیا ہے :
"ان میں استادی اور جدت چاہے جتنی بھی ہو ،
میری نظموں میں تکبر بالکل نہیں ہوگا
وہ کچھ شرمیلی ضرور ہوتی ہیں
لیکن احساسِ خوف سے وہ بے گانہ ہیں"
شرمیلے پن کا عنصر میرے سماجی پس منظر کی دین ہے ۔ اسی طرح جراءت کا وصف بھی اپنے وجود کے لیے اسی پس منظر کا مرہونِ منت ہے ۔ بہ الفاظِ دیگر جراءت کا موتی مجھے تلاشِ حق کی اپنی کوششوں کے دوران دست یاب ہوا ، جب کہ شرمیلے پن کا دکھاوا ایک حقیقت ہے ۔ اس روش نے میری شاعری کو ریاکاری سے پاک کردیا ہے ۔ میرا خیال راسخ ہے کہ بات چاہے جو بھی کہی جائے اور جس طرزِ بیان میں بھی کہی جائے اسے اول تا آخر کھرا اور پُرخلوص ہونا چاہیے ۔
بہ حیثیت شاعر میرا ظہور ایک تاریخی اتفاق ہے ۔ میں ایک تقریباً ان پڑھ خاندان میں پیدا ہوا۔ درحقیقت میں اپنے خاندان کے تعلیم یافتہ افراد کی پہلی پیڑھی کا نمائندہ ہوں۔ واقعی یہ ایک نعت تھی کہ بچپن میں مجھے کتابیں پڑھنے کا موقع بہت ملا۔ میرے اسکول کے اساتذہ اور لڑکپن کے دوستوں نے میری شاعرانہ شخصیت کی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ فطری طورسے یہ امر میری شاعری میں قابل لحاظ حد تک پائی جانے والی یادِ ماضی کا باعث ہے ۔ میرا خیال ہے کہ یہ یادماضی کم زوری اور بے بسی کی علامت نہیں ہے ۔ دوسری طرف یہ پیڑھیوں کے درمیان پل کا کام دیتی ہے ۔ چناں چہ میری شاعری نظامِ تقویم کے دائرۂ عمل کے باہر نہیں ہے ۔ یہ سفر ارتقاکی حدود کے بھی اندر ہی ہے ۔ بہ حیثیت شاعر میں حقیقی مفہوم میں خوابوں کا رسیا نہیں ہوں ۔ میرے خواب اس مٹی اور اس زمین میں کھلنے والے پھول ہیں جہاں کا میں باشندہ ہوں۔ مٹی کی خوش بو میری شاعری کا وصف امتیازی ہے ۔ میں پانی سے محروم ایک سوکھے علاقے میں پیدا ہوا ۔ چناں چہ میری دوستی چٹانوں اور پہاڑیوں کے ساتھ رہی ہے ۔ میں نے تصور کی آنکھوں سے وہاں ندیاں بہتی دیکھی ہیں اور آنسوو ¿ں کی دھارا محسوس کی ہے ۔ میں آندھرا پردیش کے جنوبی تلنگانہ کا باشندہ ہوں۔ یہ علاقہ اپنے آنسوو ¿ں کی چادریں چٹانوں پر سکھاتا ہے ۔
اس ساری صورت حال کی وجہ سے اپنے گاو ¿ں میں میری جڑیں گہری ہیں۔ ایک اعتبار سے ہرشاعر کا کلام اس کی جذباتی آپ بیتی ہوتی ہے۔ میری حیثیت استثنائی نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ میری شاعری بھی شخصی اور سماجی اجزائے ترکیبی کا ایک مرکب بن چکی ہے نہ صرف ممتاز ادیبوں نے بلکہ عامیوں نے بھی میری شعر گوئی کو متاثر کیا ہے ۔ میں بعض ایسے افراد سے متاثر ہوا ہوں جو ان پڑھ ہونے کے باوجود واقعی دانش ور ہیں ۔ ایسی مثالیں میرے سامنے ہیں جب نام نہاد عامیوں نے عالمانہ رسالوں میں پائے جانے والے اصول نہایت آسانی سے اور خلاقانہ اپنائیت کے ساتھ بیان کیے ۔
میں پچاس سال قبل علاقۂ تلنگانہ کے ضلع نل گنڈہ میں بہ مقام بھون گیر پیدا ہوا۔ اس وقت بھون گیر بس ایک بڑا سا گاو ¿ں تھا ۔ اب اچھا خاصہ بڑا قصبہ ہے ۔ میری شاعری ان تبدیلیوں سے چشم پوشی کیسے کرتی ؟ مجھے ایک اچھا طالب علم سمجھا جاتا تھا ۔ مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کے ذریعے حاصل ہونے والی علمی کام یابیوں کی بہ دولت میرا تقرر وائس چانسلر جیسی باوقار خدمت پر ہوا۔ بے شک یہ میرے لیے باعث مسرت ہے لیکن اگر میرے اندرونی طوفان کی شدت کو قابو میں رکھا ہے تو بس میرے شاعری کے مشغلے نے ۔ وہ متعدد علمی خدمات جن پر میں فائز رہا ہوں میرے شعری ہفت خواں کے آڑے نہیں آئیں ۔ فی الحقیقت اپنی شاعری سے مجھے فرائض منصبی کی انسان دوستانہ طریق عمل سے بجا آوری میں مدد ملی ۔
میری تحقیقی کاوشوں کو بھی ادبی حلقوں میں کافی سراہا گیا ہے ۔ میں نے کبیر کے ہم رتبہ شاعر "ویمنا " پر تحقیق کی ہے ۔ ویمنا پر میری کتاب کے اب تک تین ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ مطالعے اور حوالے دونوں کے لیے اسے ایک معتبر رسالے کی حیثیت حاصل ہے ۔ حجم کے اعتبار سے شاعری کے مقابلے میں میدان تحقیقی میںمیرا حصہ زیادہ ہے ۔ میرا خیال ہے کہ تحقیق اور تخلیقی شاعری کے مابین کسی قسم کی بے آہنگی نہیں ہے ۔ وہ کسی مزدور اور انسان دوست کی طرح فرحت انگیز طورپر ہم وجود ہوسکتی ہے ۔
میری شاعری کا آغاز اس وقت ہوا جب میری عمر بارہ سال تھی ۔ میں اشعار بحر اور قافیے کے لزوم کے ساتھ لکھتا تھا ۔ بعد میں میں نے آزاد نظم لکھنی شروع کی اور کبھی پچھلا زمانہ یاد نہیں کیا۔ میرے بچپن میں گیان پیٹھ انعام یافتہ ممتاز شاعر ڈاکٹر سی ‘ نارائن ریڈی نے میری ادبی کاوشوں میں ہرطرح سے میری ہمت افزائی کی ۔ گوکہ میں نے کلاسیکل ادب کا مکمل طورپر مطالعہ کیا ہے ، میں نے اپنی نگارشات کے لیے سادہ اسلوب بیان کو ترجیح دی تاکہ انھیں ہرزمرے کے قارئین بہ آسانی سمجھ سکیں۔ میں عبارت کے موضوع اور طرز اظہار دونوں پر خاص توجہ دیتا ہوں۔ یہ طریق کار میرے اسلوب بیان کو قارئین کے لیے خاصہ دل پذیر بنادیتا ہے ۔
اسی ضمن میں میں یہ بتانا چاہوں گا کہ میری نظم کی تشکیل کس طرح ہوتی ہے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ میرے ذہن میں کوندنے والا خیال اپنی ساخت خود ہی تلاش کرلیتا ہے ، پورے اعتماد کے ساتھ بے باکانہ آگے بڑھتا اور وجدانی طورپر خود بہ خود انجام کو پہنچتا ہے ، جیسے کہ اس کی منزل مقصود پہلے سے متعین ہو۔ بہ الفاظ دیگر وہ ترنگ اور جذبہ جو مجھے شعر گوئی پر مجبور کرتے ہیں نظم کی روش کو بھی متعین کرتے ہیں ۔ اس طرح نظم وہاں رک جاتی ہے جس نقطہ پر پہنچ کر ترنگ اور جذبے کا عمل ، کچھ عرصے کے لیے سہی ‘ انجام کو پہنچتا ہے ۔ اس مرحلے پر میں ہمیشہ اپنی نظم کو ختم کردیتا ہوں۔ میں نظم کو طول دینے کے لیے اس میں مصرعوں کا اضافہ کبھی نہیں کرتا ۔ بالغرض طول دوں بھی تو ان دو مرحلوں کے مابین فرق کو آسانی سے پہچان سکتا ہوں۔ بالعموم میں نظم ایک ہی نشست میں لکھ لیتا ہوں لیکن میں اسے فوراً کسی مجلے میں اشاعت کے لیے نہیں بھیجتا ۔ جب بھی فرصت ملتی ہے اسے دوبارہ پڑھتا ہوں۔ اپنی نظمیں قریبی دوستوں کو پڑھ کر سنانا میری عادت ہے ۔ میری نظمیں سب سے پہلے میری اہلیہ سنتی ہیں۔ وہ ایک مثالی سامع ہیں ‘ میں پڑھ کر سناتا ہوں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے چہرے کے تاثرات اور ردِّ عمل پر نظر رکھتا ہوں ۔ اگر کوئی تبدیلی دکھائی دے تو رک جاتا ہوں اور مصرعے پر غور فکر کرتا ہوں ۔ میری اہلیہ عدم تسلسل کو بھانپ لینے میں بہت تیز ہیں۔ مسلسل سنتے رہنے کی بہ دولت وہ ایک اعلیٰ درجے کے سامع بن گئی ہیں۔ جب اشعار مجھ پر وارد ہوتے ہیں تواکثرایسا بھی ہوتا ہے کہ میں سناتا ہوں اور وہ لکھتی جاتی ہیں ۔
میں شاعری میں ساخت کے عنصر کو بڑی اہمیت دیتا ہوں ۔ میں ایسی نظم نہیں لکھ سکتا جو پہلے مصرعے سے لے کر آخری مصرعے تک نحوی طورپر مربوط نہ ہو۔ شاعری میں مابعد جدیدیت ‘ ردِّ تشکیل ‘ عمل تسلسل اور دیگر مظاہر کا ذکر سنتے ہیں۔ ایک دفعہ میں نے کوشش کی کہ ساختیاتی جمالیات سے عاری ایک نظم لکھوں ۔ لیکن یہ دیکھ کر میرا تجربہ بالکل ناکام رہا میری ہمت چھوٹ گئی ۔ چناں چہ شعرائِ ردِّ تشکیل کی فہرست میں میں اپنا درج نہ کراسکا ۔
ان نظموں کی تعداد جنھیں میں نے شعوری کوشش سے لکھا ہے ناقابلِ لحاظ ہے ۔ میں نظمیں صرف ناگزیر مجبوری کے تحت لکھتا ہوں ۔ بے شک میں نے متعدد نظمیں شعری محفلوں کے لیے لکھی ہیں ۔ میں سامعین کو موہ لے سکتی ہیں۔ ان تقاریب میں گہرے ادراک کے امر سے مملو نظمیں ستائش سے محروم رہ جاتی ہیں۔ لفاظی اور نکمی ‘ نمائشی تراکیب الفاظ سے آراستہ نظموں کے مقابلے میں اس نوعیت کی نظمیں ماند پڑجاتی ہیں۔ میرے خیال میں نظم کو اس وقت بھی پرکشش ہونا چاہیے جب کوئی اسے اپنے لیے پڑھے اور اس وقت بھی جب اسے دوسروں کو سنانے کے لیے بہ آواز بلند پڑھا جائے۔ میری نظم "مجاہد آزادی" جو اسی نوعیت کی ہے آپ کے سامنے ہے ۔
مجموعہ ¿ کلام کی اشاعت کے موقع پر میں نظموں کی تزئین و ترتیب پر کافی محنت کرتا ہوں۔ بالخصوص میں نوجوان شعرا کی رائے جاننے کی کوشش کرتاہوں۔ جب بے رحمی کے ساتھ اپنی پسند کے مصرعے حذف کرتا ہوں تو مجھے کافی دماغی تکلیف بھی پہنچتی ہے ۔ لیکن اسے بھول بھی جاتا ہوں جب مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ نتیجتاً نظم چمک اٹھی ہے ۔ نظم کو مکمل کرنے کے بعد اسے "وقت " کے حق میں وصیت نامہ سمجھتا ہوں ۔ آگے چل کر میں اسے بھول جاتا ہوں ۔ کچھ دنوں بعد جب مجھے اسے پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کیا اس کا خالق میں ہوں ۔
میں شاعری کی قلم رو میں صحت مند رجحانات اور تازگی کو خوش آمدید کہتا ہوں اور اس خصوص میں اپنی ایک کاوش کا حوالہ دینا چاہوں گا ۔
میں نے حال ہی میں مختصر نظم کی ایک نئی طرز کی نکتہ سنجانہ شکل موسوم بہ "نائیلو" کا تجربہ کیا ہے ۔ جاپانی الاصل "ہائیکو" کے تعلق سے شاعروں کی دیوانگی اور اس صنف کے تحت نگارشات کے معیار کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ دیسی صنف سخن ایجاد کی ہے ۔ آج اسے رجحان ساز گردانا جارہا ہے ۔
اب میں انعام کا مستحق قرار دیے جانے والے اپنے مجموعے "کالنی ندرا پونیو کونو" (میں وقت کو سونے نہیں دوں گا) کا مختصر تعارف کرواتا ہوں ۔ اب تک میری نظموں کے سات مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔ میری نظموں کا مجموعہ "کالنی ندرا پونیوکونو" (میں وقت کو سونے نہیں دوں گا) ہیجانِ جذبات‘ درد اور مصلحت اندیشی کی توضیح کرتا ہے یعنی ان عوام کو جو "وقت " کے مختلف پہلوو ¿ں کی حیثیت سے بروئے کار آتے ہیں ۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نے یہ نظمیں حالت ِ وجد میں لکھی ہیں ۔ اس مجموعے کی اشاعت سے قبل میری بیٹی ‘ جس کی عمر بس سترہ سال تھی ‘ دم توڑچکی تھی ۔ میں دکھ کے پاتال میں پہنچ گیا تھا۔ کسی طرح میں پیٹ کے بل چلتا اوپر‘ سطح زمین تک پہنچا۔ سطح زمین کو واپسی کے دوران میں نے "وقت" سے سوال جواب کی شکل میں نظمیں لکھیں جو اس مجموعے میں شامل ہیں۔ ان نظموں میں انفرادی رنج و ملال کے پیکر ملیں گے جن کی تعمیم ہوجاتی ہے اور عالمی رنج و ملال میں قلب ماہیت بھی ہوجاتی ہے ۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں اس مجموعے کے ذریعے "انسان " کے اور قریب آگیا ہوں۔
میں نے ماضی کے پھل اکٹھا کیے ہیں۔ میں حال کی دمکتی ہوئی روشنی میں کھڑا ہوں۔ میں مستقبل کے لیے بیج بورہا ہوں۔ میں اس انعام کو میرے اب بھی دکھتے ہوئے زخمی د ل پر درد کو دھیما کرنے کے لیے لگایا جانے والا صندل کا لیپ سمجھتا ہوں ۔ ایک طرح سے یہ انعام مستقبل میں تلاشِ حق کی میری مسلسل کاوشوں کے لیے طاقت کے سرچشمے کا کام دے گا ۔ میں ساہتیہ اکاڈمی اور اس انعام کو عطا کرنے کے عمل میں شامل تمام افراد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

***
ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کے موقع پر 20 فروری 2001ء
بہ مقام نئی دلی ‘اجتماعِ مصنّفین و شعراءمیں دیا گیا خطبہ
(بہ شکریہ جناب اُ سّامہ فاروقی و شعر و حکمت حیدرآباد)

___
ماخوذ:
اپنی بات - 'گوپی کی سو نظمیں'

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں