مضمون نگار: سید معظم راز۔ (بشکریہ: تعمیر نیوز)
خیال آگ ہے ، شعلہ ہے فکر ، لَو ، الفاظ
یہ سب ہنر ہیں تو پھر اس ہنر میں ہم بھی ہیں
درج بالا شعر میں لفظ''ہنر'' کے جہانِ معنی بیان کرنے والی شخصیت کو ادبی دنیا شہر دکن حیدرآباد سے وابستہ جدید لب و لہجے کے شاعر غیاث متین کے نام سے جانتی ہے۔ غیاث متین(اصل نام سید غیاث الدین)کی تاریخ پیدائش10 نومبر1942ء ہے۔ انھوں نے ایم۔اے( جامعہ عثمانیہ ) امتیازی نشانات اور دوہرے گولڈ میڈل کیساتھ تکمیل کرنے کے بعد سری وینکٹیشورا یونیورسٹی، تروپتی سے بی۔ ایڈ۔ کیا۔ بعد ازاں پروفیسر مغنی تبسم صدر شعبۂ اردو، جامعہ عثمانیہ کی زیر نگرانی ''ن۔م۔راشد-ایک تجزیاتی مطالعہ'' کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کی تکمیل کی۔ ابتدأ میں پرائمری اسکول ٹیچر کی حیثیت سے شعبۂ تدریس سے وابستہ رہے۔جنوری 1975ء کو شعبۂ اُردو ، جامعہ عثمانیہ میں لکچرر کی حیثیت سے ان کا تقرر عمل میں آیا۔ 1992ء میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ 1995-98ء صدر شعبہئ اُردو اور1996-98ء چیئرمین بورڈ آف اسٹیڈیز کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ نومبر 2002ء کو وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے ۔ 21اگسٹ 2007ء کو انتقال ہوا 65برس کی عمر پائی۔
تم نے پوچھا ہے تو بس تم کو بتاتا ہوں متینؔ
صبح ہوتی ہے کہیں ، شام کہیں ہوتی ہے !
بیسویں صدی کے نصف سے ''ترقی پسند ادب'' کی جگہ ''جدید ادب '' کے عنوان سے نئے رجحانات ہر زبان کے ادب پر حاوی ہونے لگے۔ جس کا اثر پورے ہندوستان میں بھی محسوس کیا جانے لگا۔ ایسے میں جدیدیت سے وابستہ حیدرآباد کے چند نوجوان ادیب و شعرأ نے 1956ء میں ''ادارہء مصنفین نَو'' کے نام سے اپنی علحدہ تنظیم قائم کی۔ جس کے بانی اراکین میں حسن فرخ، رؤف خلش، مسعود عابد، کیف رضوانی، اکمل حیدرآبادی، احمد جلیس، رفعت صدیقی، اعظم راہی ، ساجد اعظم اور غیاث متین اہم نام رہے۔ جبکہ 1958ء میں اعظم راہی نے حیدرآباد کے نئے قلم کاروں اور ملک بھر سے جدید ادب تخلیق کرنے والوں کے تعاون سے اس نئے رجحان کی ترویج کی خاطر ماہنامہ ''پیکر'' کا اجرأ کیا۔ بہت ہی کم عرصے میں ''پیکر'' نے اردو دنیا میں اپنی پہچان و شناخت قائم کرلی۔ ''پیکر'' سے وابستہ ادیب و شعرأ کا گروپ آگے چل کر1975ء میں ''حیدرآباد لٹریری فورم(حلف)''کے قیام کا باعث بنا۔ غیاث متین ، حلف کے بانی رکن ہونے کے علاوہ 1986-90 تک اس کے معتمد خاص اور1990-92 میں نائب صدر رہے۔
اپنی ہی ذات کے اندر کا سفر خوب سہی
قاف تا قاف سفر ہو ، تو سفر لگتا ہے !
قریب چار دہوں سے زائد اپنے فنی سفر کے دوران غیاث متین نے ادبی دنیا کو تین تصانیف سے نوازا۔ جن میں پہلا شعری مجموعہ ''زینہ زینہ راکھ''( 1980ء) اور دوسرا شعری مجموعہ''دھوپ، دیواریں، سمندر، آئینہ''( 1993ء)کے علاوہ تلگو کے شاعر پروفیسر این۔گوپی کی تلگونظموں کا اردو ترجمہ بعنوان'' گوپی کی سو نظمیں''(2005ء)شامل ہیں۔
کاغذوں کے ٹکڑوں سے آئینہ بناتے ہیں
ہم ہیں کیسے دیوانے ، کیا سے کیا بناتے ہیں
تتلیوں کے پَر جیسے خواب ہیں متینؔ اپنے
ہاتھ بھی نہیں آتے ، سلسلہ بناتے ہیں
پروفیسر عالم خوندمیری، پروفیسر مغنی تبسم، پروفیسر حنیف کیفی، امجد الاسلام امجد، شمس الرحمٰن فاروقی، عزیز قیسی ، یوسف اعظمی اوراسلم عمادی جیسے مستند اور جدید فکر کے حامل نقادوں نے ان کے شعری مجموعوں پرمضامین لکھے اور ان کے فن کو سراہا۔ غیاث متین کی شاعری کا خاص وصف علامتی و استعاراتی سنجیدہ اسلوب اورجدید حسیت سے بھرپور پیکر تراشی کا عمل ہے۔اس وصف سے متعلق پروفیسر عالم خوندمیری لکھتے ہیں:
''نئی حسیت ، ایک مبہم اصطلاح ہے، یہ ایک ادبی تہذیب کا تسلسل ہے، اسی لئے ایک طرف تہذیبی تاریخ سے مربوط ہے تو دوسری طرف ، ایک نئے دور کا آغاز بھی۔یہ کلّی عالمی حسیت کی جزو بھی ہے یہ مقام عصری تقاضوں کا جمالیاتی اظہار بھی۔اسی لئے یہ نئے پیکر بھی تراشتی ہے اور روایت سے مربوط پیکروں کو نئی علامتوں کی صورت بھی عطا کرتی ہے، اسی مقام پر ترسیل ممکن بھی ہوتی ہے اور ترسیل کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔غیاث متین اسی نئی حسیت کے شاعر ہیں۔ ان کا اسلوب اسی نئی حسیت کا اظہار ہے، اسی لئے مجھے ان کے اسلوب میں ایک 'شخصیت' نظر آتی ہے۔ان کے علائم مجرد نہیں ہیںاور صرف ذہن کی کارفرمائی کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ ان میں خوابناک حسّی پیکروں کی سی کیفیت ہے۔یہ لاشعور سے ابھرتے ہیں لیکن ایک ایسا شعوری رنگ اختیار کرلیتے ہیں، جس میں لاشعور کا عکس برقرار رہتا ہے۔غیاث متین کی شاعری اردو کی اسی نئی روایات کا کا تسلسل ہے جس کا آغاز ن۔م۔راشد سے ہوا۔اس نئی روایت میں انفرادی اظہار کے لئے لامحدود فضا ہے۔ان کے علائم، استعارے اور ان کے تراشے ہوئے حسّی پیکر قاری سے صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔صورت اور معنی کے درمیان فاصلہ اچھے فن کی ایک خصوصیت ہے۔غیاث متین کی شاعری اس فاصلے کی علامت ہے۔''
جہاں ممتاز ادیب و نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کہتے ہیں کہ غیاث متین کی شاعری میں سنجیدگی اور لہجے کا وقار قابلِ لحاظ ہے، وہیں معروف شاعر اسلم عمادی کا خیال ہے کہ غیاث متین ایک سنجیدہ اور گہری فکر کے حامل شاعر ہیں، وہ روایات اور میلانات کی پابندی سے گھبراتے ہیں۔ان کی نظموں میں شکست و ریخت کا عمل جاری رہتا ہے۔
غیاث متین نے اپنا پہلا مجموعہ''زینہ زینہ راکھ'' جدید اظہار کے نام معنون کیاہے۔اس کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں:
''میری شاعری علامتی سوچ کا اظہار ہے۔ میں نے کوئی جست نہیں لگائی، بلکہ بیانیہ سے گذر کر ، اپنے عصر کی آواز کو پہچاننے، اسے اپنے میں جذب کرنے اور برتنے میں ہر قدم راکھ ہوا ہوں ، تب یہ شعری مجموعہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچا ہے۔میرے نزدیک نہ صرف خود اپنے لیے بلکہ کسی اور کے لیے شعر کہنے کا جواز اُس وقت تک پیدا نہیں ہوتا' جب تک کہ اُس کا اظہار' اپنے عصر کے اظہار سے ہم آہنگ نہ ہو۔میں جذبات کے ذریعہ نہیں لکھتا' بلکہ الفاظ کے ذریعہ لکھتا ہوں یعنی یہ کہ تجربے کو الفاظ کی شکل میں محسوس کرتا اور لہجہ کے ذریعہ اس کے اظہار کی سکت رکھتا ہوں۔''
مختصر نظم بعنوان ''اب کیا بچاہے ؟'' میں وہ کہتے ہیں:
۔ ۔۔ بو ہے ابھی تک، / دھوئیں کی، / فضاؤں میں، / اب کیا بچا ہے؟ / دھواں / ضبطِ تحریر میں / آ بھی جائے تو کیا ہو !
ایک اور نظم بعنوان ''پانی پانی آئینہ'' کا آخری بند:
اور میں یہ سوچتا ہوں / کل تو میرا جسم گھائل تھا / مگر، / آج میری روح زخمی ہوگئی ہے / اور میں / بے لباسی میں برہنہ تھا، / کہ اب !؟
وہ مزید لکھتے ہیں : ''اپنی شاعری میں' میں نے زیادہ تر اپنے آپ ہی سے گفتگو کی ہے۔ کہیں خودکلامی اور ہم کلامی ہے تو کہیں خود میں ایک ایسا کردار بن گیا ہوں جو کسی دوسرے کردار سے (جو بظاہر نظر نہیں آتا) مخاطب ہے۔ اس کے علاوہ کہیں میرا مخاطب ''زمانہ'' ہے کہیں ''وقت'' اور کہیں میری ہی طرح کے دوسرے کردار۔''وقت'' کا عرفان' میری شاعری کی پہچان کا وسیلہ بن سکتا ہے لیکن اس راکھ میں وہ چنگاری چھپی ہوئی ضرور ہے جس کی تلاش دیدہ بینا کے لئے مشکل نہیں۔''
دھوپ کا احساس جانے کیوں اسے ہوتا نہیں
وقت آوارہ ہے ، ٹھنڈی چھاؤں میں سوتا نہیں
''زینہ زینہ راکھ'' میں کُل 56 نثری وآزاد نظموں شامل ہیں۔ نظموں کی فروانی کے سبب ابتدأ میں انھیںنظم گو شاعر کی حیثیت سے پہچان ملی۔اس مجموعے میںمحض مٹھی بھرغزلوں کے باوجود ان کی نظموں میں پیکر تراشی کے عمل، جدید علامتی اسلوب ، فکر کی گہرائی میں ڈوباطرزِ اظہار، غیر مانوس علامتوں و تراکیب میں ڈوبا ہوا لہجہ انھیں ابھرتے شعرأ کی بھیڑ میں انفرادیت بخشنے میں بڑی حد تک ممد و معاون رہا۔
اپنی دوسری تصنیف ''دھوپ، دیواریں، سمندر، آئینہ'' میں 'انتساب ' کے تحت انھوں نے لکھا ہے ''حیدرآباد لٹریری فورم(حلف)کے نام - جو میرا خواب بھی ہے اور تعبیر بھی'' جبکہ کتاب معنون کی گئی ہے ''نئی نسل کے نام - جس کے شعری ذوق پر مجھے بھرپور اعتماد ہے''۔
غیاث متین کے ہم عصر و قریبی رفیق رؤف خلش ''حلف '' اور اپنی نصف صدی کی رفاقت کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میںیوں رقم طراز ہیں:
''1975ء میں قائم کردہ ادبی انجمن''حیدرآباد لٹریری فورم'' ایک ایسی انجمن تھی جو غیاث کی طاقت بھی تھی اور کمزوری بھی۔غیاث جس کا بانی رکن، معتمد اور آخری وقت تک صدر بھی تھا۔اپنے نام کے اعتبار سے اس میں بھر پور متانت تھی لیکن حسِ مزاح بھی بلا کی تھی۔اُس کی شخصیت سنجیدگی اور بذلہ سنجی کا مجموعہ تھی۔ اُس کے اندر اپنے زخموں کو چھپانے کی پرانی عادت تھی۔زمانے کے زخم، درد و الم کے زخم، اپنوں اور پرایوں کے زخم۔ اُس کے مزاج میں برداشت کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ لیکن وہ دو ٹوک بھی تھا۔منہ پر کہہ دیتا۔اُس نے اپنی ابتدائی زندگی نہایت ہی تگ و دو اور محنت میں گذاری تھی اور پرائمری اسکول ٹیچر سے یونیورسٹی کے پروفیسر تک پہنچا۔
میں اکثر تخلیقی اور غیر تخلیقی فن کے لئے انگریزی کی دو اصطلاحیں Creation اور Productionاستعمال کرتا ہوں۔ لیکن غیاث کی نظر میں ان کے لئے دو اور اصطلاحیں تھیں:Art اور Craft: چنانچہ وہ مشاعروں میں تُک بندی اور قافیہ پیمائی کرنے والے شاعروں کو دیکھ کر کہتا تھا کہ پیارے آؤ !کچھ دیر کرافٹنگ کرنے والوں کی بھی سُن لیں۔''
دسمبر 93ء میں شائع شدہ دوسرے مجموعے میں جہاں (38) غزلوں کو جگہ دی گئی ہے وہیں محض(16)نظمیں شامل ہیں۔ ابتدأ میں نظم گو شاعر کی پہچان کے حوالے سے پیش لفظ بعنوان''عکسِ خیال'' کے تحت وہ رقمطراز ہیں:
1980ء کے بعد شعوری یا لاشعوری طور پر میں نے غزل کی جانب توجہ کی۔ غزل جو ایک جادوئی صنف ہے، اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتی ہے۔'جدید غزل' نے پچھلی ربع صدی کے دوران جس طرح اپنے آپ کو منوایا ہے ' اس طرح پوری اردو شاعری کی تاریخ میں کسی اور صنف نے اپنے آپ کو نہیں منوایا ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ' غزل کی اندرونی ہئیت میں تبدیلی ہے جس میں اظہار کے اسلوب ' استعاراتی اور علامتی انداز بیان' نئے الفاظ اور تراکیب کی شمولیت' نئی زبان کی تخلیق ' روزمرہ واقعات اور مسائل کا تخلیقی اظہار ' سبھی کچھ شامل ہے ۔ اپنے ہمعصر جدید غزل گو شعراء کی طرح میں نے بھی غزل کی اندرونی ہئیت کو بدلنے کی کوشش کی ہے ۔''
اپنے لہجے کی یہی پہچان ہے
دھوپ، دیواریں، سمندر، آئینہ
آگے رقمطراز ہیں: ''میری شاعری میں لفظ کو اس کے لغوی اور اکہرے معنی میں استعمال کرنے کے بجائے اسے علامت اور استعارے کے طور برتنے کا عمل آپ کو ملے گا '' دھوپ ' دیواریں ' سمندر ' آئینہ '' صرف چار لفظوں پر مشتمل ایک مصرعہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ اپنی جگہ مکمل استعارے اور علامتیں ہیں ' جن کا ہمارے تمدن کی تاریخ سے راست تعلق ہے ۔ گویا یہ استعارے اور علامتیں اپنے تمدن کی تاریخ کا مظہر ہیں ۔ ان کلیدی استعاروں اور علامتوں کے علاوہ ' میری شاعری میں ' موسم ' پرندے ' دریا ' شجر ' ثمر ' جگنو ' رات ' شام ' چراغ' کاغذ' پتھر ' شاخ ' پھول ' پتے ' پھل ' تنہائی ' دہلیز ' گھرا ور ایسے ہی دیگر الفاظ کہیں انفرادی اور اجتماعی لاشعور کے علائم ہیں ۔میں نے اس مجموعے کی ابتدائی چند غزلوں میں استعاروں اور علامتوں ہی کو ردیف بنانے کا تجربہ کیا ہے ۔ یہ تجربہ کوئی نیا نہیں ہے ۔ اساتذہ اور خاص طور پر جدید شعراء کے ہاں اس طرح کے نمونے ہمیں مل جاتے ہیں ۔ لیکن اتنی بڑی تعداد میں کسی ایک شعری مجموعے میں اس طرح کی ردائف کا استعمال شائد پہلی بار ہوا ہے۔''
لہجے کو پھول ' لفظ کو جُگنو ' اگر کریں
وقتِ رَواں کے ساتھ معانی ' سفر کریں
موسم ' پرندے ' دھوپ کی دیوار ' شب چراغ
قصہ طویل ہونے لگا ' مختصر کریں
آئینہ بن کے بات کرتی دھوپ
دِل کی دیوار پر برستی دھوپ
اکیلا گھر ہے ' کیوں رہتے ہو ' کیا دیتی ہیں دیواریں
یہاں تو ہنسنے والوں کو ' رُلادیتی ہیں دیواریں
چڑھتے ہوئے دریا ہوں کہ سوکھی ہوئی نہریں
رکھتے ہیں تِرے سر ' سبھی الزام ' سمندر
عکس جس کو تم سمجھتے ہو متینؔ
آئینے کے بھی ہے اندر آئینہ
کیوں کسی کو ڈھونڈتے ہو ، ہاتھ میں لے کر چراغ
اب کہاں وہ گاؤں ، ہوتے تھے جہاںگھر گھر چراغ
غیاث متین کے ہاں مختصر بحروں میں بھی بڑی تعداد میں غزلیں ملتی ہیں:
ٹوٹنا اپنے دل کا یاد آیا
آئینہ ٹوٹ کر بکھرتے ہی !
چلتے پھرتے منظروں کا سلسلہ
آئینہ ، درِ آئینہ ، درِ آئینہ
ہم سے کیا پوچھتے ہو کیا ہے رات
اس کی باتوں کا سلسلہ ہے رات
اسی سے دل کی سیرابی ہے لوگوں
نکل کر آنکھ سے دریا نہ جائے
بڑی دھوپ تھی گھر کے باہر متینؔ
مگر ، وہ شجر آسرا دے گیا
دل جلا پھر ، چراغ جلتے ہی
اپنے دکھ بھی ہیں شام جیسے ہی
نظم کے حوالے سے اسی مجموعہ ہائے کلام کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں: ''جہاں تک نظم کا سوال ہے ' نظم اپنی ایک شناخت بلکہ شخصیت رکھتی ہے ۔ جس کی تشکیل موضوع اور ہئیت کی ہم آہنگی سے ہوتی ہے ۔ اس مجموعے میں شامل اپنی نظموں میں میرا تخلیقی عمل پیکر کی تجسیم ہے ۔ کوشش میں نے یہی کی ہے کہ موضوع اور ہئیت میں ہم آہنگی پیدا کرسکوں۔ اس مجموعے میں شامل اپنی نظموں میں میرا تخلیقی عمل پیکر کی تجسیم ہے ۔ کوشش میں نے یہی کی ہے کہ موضوع اور ہئیت میں ہم آہنگی پیدا کرسکوں ۔ ''
اس مجموعے میں شامل تمام 16نظمیں طویل اور بیانیہ ہیںاور جن میں سے بیشتر خودکلامی کا عنصر لی ہوئی ہیں۔نظم بعنوان ''وقت'' کے آخری دو بند متاثر کن ہیں:
ازل اور ابد کے کنارے بھی / اک واہمہ ہیں / حقیقت تو یہ ہے / ازل اور ابد سے پرے / وقت کا دائرہ ہے
وہ دیروز کی شام / کب لوٹ کر آسکی ہے / نظر جس کی امروز و فردا کے چہروں پہ مرکوز ہے / وہی اس سفر میں افق زاد ہے !
مجموعے میں بارہ بندوں پر مشتمل آخری نظم بعنوان '' زمین والوں کے نام'' ہے۔جس کے آخری چار بند ملاحظہ ہوں:
چراغ اندر چراغ : تم ہو / کتاب اندر کتاب : تم ہو / سوال اندر سوال : تم ہو / جواب اندر جواب : تم ہو / خدا نے روز ازل، / جو دیکھا تھا خواب : تم ہو
تمھیں سے عزت، / تمہیں سے نکہت، / تمہیں سے شہرت، / زمین کی ہے
بچا سکو تو / اسے بچا لو
زمین والو / زمین والو !
شہر دکن حیدرآباد میں جدیدیت بطور خاص حیدرآباد لٹریری فورم سے وابستہ ادیب و شعرأ کے تعلق سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تقریباً سبھی نے اپنی تخلیقات میںمقدار کے مقابل معیار کوترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً سبھی کے دو یا تین مجموعہ ہائے کلام ہی شائع ہوئے۔ غیاث متین کے ہاں 1994-2007 تک کی تخلیقات ہنوز اشاعت کی متقاضی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے دونوں فرزنداں و شاگردوں میں سے کوئی آگے آئے اور غیاث متین کاباقی ماندہ کلام جو کوئی (14) سال کے عرصے پر محیط ہے، اکٹھا کرکے شعری مجموعے کی شکل میں شائع کروائے۔بقول غیاث متینؔ:
میں نے چپکے سے کہی ، اک بات اس کے کان میں
اس نے اپنے ہاتھ سے گل کردیا ہنس کر چراغ !
خیال آگ ہے ، شعلہ ہے فکر ، لَو ، الفاظ
یہ سب ہنر ہیں تو پھر اس ہنر میں ہم بھی ہیں
درج بالا شعر میں لفظ''ہنر'' کے جہانِ معنی بیان کرنے والی شخصیت کو ادبی دنیا شہر دکن حیدرآباد سے وابستہ جدید لب و لہجے کے شاعر غیاث متین کے نام سے جانتی ہے۔ غیاث متین(اصل نام سید غیاث الدین)کی تاریخ پیدائش10 نومبر1942ء ہے۔ انھوں نے ایم۔اے( جامعہ عثمانیہ ) امتیازی نشانات اور دوہرے گولڈ میڈل کیساتھ تکمیل کرنے کے بعد سری وینکٹیشورا یونیورسٹی، تروپتی سے بی۔ ایڈ۔ کیا۔ بعد ازاں پروفیسر مغنی تبسم صدر شعبۂ اردو، جامعہ عثمانیہ کی زیر نگرانی ''ن۔م۔راشد-ایک تجزیاتی مطالعہ'' کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کی تکمیل کی۔ ابتدأ میں پرائمری اسکول ٹیچر کی حیثیت سے شعبۂ تدریس سے وابستہ رہے۔جنوری 1975ء کو شعبۂ اُردو ، جامعہ عثمانیہ میں لکچرر کی حیثیت سے ان کا تقرر عمل میں آیا۔ 1992ء میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ 1995-98ء صدر شعبہئ اُردو اور1996-98ء چیئرمین بورڈ آف اسٹیڈیز کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ نومبر 2002ء کو وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے ۔ 21اگسٹ 2007ء کو انتقال ہوا 65برس کی عمر پائی۔
تم نے پوچھا ہے تو بس تم کو بتاتا ہوں متینؔ
صبح ہوتی ہے کہیں ، شام کہیں ہوتی ہے !
بیسویں صدی کے نصف سے ''ترقی پسند ادب'' کی جگہ ''جدید ادب '' کے عنوان سے نئے رجحانات ہر زبان کے ادب پر حاوی ہونے لگے۔ جس کا اثر پورے ہندوستان میں بھی محسوس کیا جانے لگا۔ ایسے میں جدیدیت سے وابستہ حیدرآباد کے چند نوجوان ادیب و شعرأ نے 1956ء میں ''ادارہء مصنفین نَو'' کے نام سے اپنی علحدہ تنظیم قائم کی۔ جس کے بانی اراکین میں حسن فرخ، رؤف خلش، مسعود عابد، کیف رضوانی، اکمل حیدرآبادی، احمد جلیس، رفعت صدیقی، اعظم راہی ، ساجد اعظم اور غیاث متین اہم نام رہے۔ جبکہ 1958ء میں اعظم راہی نے حیدرآباد کے نئے قلم کاروں اور ملک بھر سے جدید ادب تخلیق کرنے والوں کے تعاون سے اس نئے رجحان کی ترویج کی خاطر ماہنامہ ''پیکر'' کا اجرأ کیا۔ بہت ہی کم عرصے میں ''پیکر'' نے اردو دنیا میں اپنی پہچان و شناخت قائم کرلی۔ ''پیکر'' سے وابستہ ادیب و شعرأ کا گروپ آگے چل کر1975ء میں ''حیدرآباد لٹریری فورم(حلف)''کے قیام کا باعث بنا۔ غیاث متین ، حلف کے بانی رکن ہونے کے علاوہ 1986-90 تک اس کے معتمد خاص اور1990-92 میں نائب صدر رہے۔
اپنی ہی ذات کے اندر کا سفر خوب سہی
قاف تا قاف سفر ہو ، تو سفر لگتا ہے !
قریب چار دہوں سے زائد اپنے فنی سفر کے دوران غیاث متین نے ادبی دنیا کو تین تصانیف سے نوازا۔ جن میں پہلا شعری مجموعہ ''زینہ زینہ راکھ''( 1980ء) اور دوسرا شعری مجموعہ''دھوپ، دیواریں، سمندر، آئینہ''( 1993ء)کے علاوہ تلگو کے شاعر پروفیسر این۔گوپی کی تلگونظموں کا اردو ترجمہ بعنوان'' گوپی کی سو نظمیں''(2005ء)شامل ہیں۔
کاغذوں کے ٹکڑوں سے آئینہ بناتے ہیں
ہم ہیں کیسے دیوانے ، کیا سے کیا بناتے ہیں
تتلیوں کے پَر جیسے خواب ہیں متینؔ اپنے
ہاتھ بھی نہیں آتے ، سلسلہ بناتے ہیں
پروفیسر عالم خوندمیری، پروفیسر مغنی تبسم، پروفیسر حنیف کیفی، امجد الاسلام امجد، شمس الرحمٰن فاروقی، عزیز قیسی ، یوسف اعظمی اوراسلم عمادی جیسے مستند اور جدید فکر کے حامل نقادوں نے ان کے شعری مجموعوں پرمضامین لکھے اور ان کے فن کو سراہا۔ غیاث متین کی شاعری کا خاص وصف علامتی و استعاراتی سنجیدہ اسلوب اورجدید حسیت سے بھرپور پیکر تراشی کا عمل ہے۔اس وصف سے متعلق پروفیسر عالم خوندمیری لکھتے ہیں:
''نئی حسیت ، ایک مبہم اصطلاح ہے، یہ ایک ادبی تہذیب کا تسلسل ہے، اسی لئے ایک طرف تہذیبی تاریخ سے مربوط ہے تو دوسری طرف ، ایک نئے دور کا آغاز بھی۔یہ کلّی عالمی حسیت کی جزو بھی ہے یہ مقام عصری تقاضوں کا جمالیاتی اظہار بھی۔اسی لئے یہ نئے پیکر بھی تراشتی ہے اور روایت سے مربوط پیکروں کو نئی علامتوں کی صورت بھی عطا کرتی ہے، اسی مقام پر ترسیل ممکن بھی ہوتی ہے اور ترسیل کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔غیاث متین اسی نئی حسیت کے شاعر ہیں۔ ان کا اسلوب اسی نئی حسیت کا اظہار ہے، اسی لئے مجھے ان کے اسلوب میں ایک 'شخصیت' نظر آتی ہے۔ان کے علائم مجرد نہیں ہیںاور صرف ذہن کی کارفرمائی کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ ان میں خوابناک حسّی پیکروں کی سی کیفیت ہے۔یہ لاشعور سے ابھرتے ہیں لیکن ایک ایسا شعوری رنگ اختیار کرلیتے ہیں، جس میں لاشعور کا عکس برقرار رہتا ہے۔غیاث متین کی شاعری اردو کی اسی نئی روایات کا کا تسلسل ہے جس کا آغاز ن۔م۔راشد سے ہوا۔اس نئی روایت میں انفرادی اظہار کے لئے لامحدود فضا ہے۔ان کے علائم، استعارے اور ان کے تراشے ہوئے حسّی پیکر قاری سے صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔صورت اور معنی کے درمیان فاصلہ اچھے فن کی ایک خصوصیت ہے۔غیاث متین کی شاعری اس فاصلے کی علامت ہے۔''
جہاں ممتاز ادیب و نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کہتے ہیں کہ غیاث متین کی شاعری میں سنجیدگی اور لہجے کا وقار قابلِ لحاظ ہے، وہیں معروف شاعر اسلم عمادی کا خیال ہے کہ غیاث متین ایک سنجیدہ اور گہری فکر کے حامل شاعر ہیں، وہ روایات اور میلانات کی پابندی سے گھبراتے ہیں۔ان کی نظموں میں شکست و ریخت کا عمل جاری رہتا ہے۔
غیاث متین نے اپنا پہلا مجموعہ''زینہ زینہ راکھ'' جدید اظہار کے نام معنون کیاہے۔اس کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں:
''میری شاعری علامتی سوچ کا اظہار ہے۔ میں نے کوئی جست نہیں لگائی، بلکہ بیانیہ سے گذر کر ، اپنے عصر کی آواز کو پہچاننے، اسے اپنے میں جذب کرنے اور برتنے میں ہر قدم راکھ ہوا ہوں ، تب یہ شعری مجموعہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچا ہے۔میرے نزدیک نہ صرف خود اپنے لیے بلکہ کسی اور کے لیے شعر کہنے کا جواز اُس وقت تک پیدا نہیں ہوتا' جب تک کہ اُس کا اظہار' اپنے عصر کے اظہار سے ہم آہنگ نہ ہو۔میں جذبات کے ذریعہ نہیں لکھتا' بلکہ الفاظ کے ذریعہ لکھتا ہوں یعنی یہ کہ تجربے کو الفاظ کی شکل میں محسوس کرتا اور لہجہ کے ذریعہ اس کے اظہار کی سکت رکھتا ہوں۔''
مختصر نظم بعنوان ''اب کیا بچاہے ؟'' میں وہ کہتے ہیں:
۔ ۔۔ بو ہے ابھی تک، / دھوئیں کی، / فضاؤں میں، / اب کیا بچا ہے؟ / دھواں / ضبطِ تحریر میں / آ بھی جائے تو کیا ہو !
ایک اور نظم بعنوان ''پانی پانی آئینہ'' کا آخری بند:
اور میں یہ سوچتا ہوں / کل تو میرا جسم گھائل تھا / مگر، / آج میری روح زخمی ہوگئی ہے / اور میں / بے لباسی میں برہنہ تھا، / کہ اب !؟
وہ مزید لکھتے ہیں : ''اپنی شاعری میں' میں نے زیادہ تر اپنے آپ ہی سے گفتگو کی ہے۔ کہیں خودکلامی اور ہم کلامی ہے تو کہیں خود میں ایک ایسا کردار بن گیا ہوں جو کسی دوسرے کردار سے (جو بظاہر نظر نہیں آتا) مخاطب ہے۔ اس کے علاوہ کہیں میرا مخاطب ''زمانہ'' ہے کہیں ''وقت'' اور کہیں میری ہی طرح کے دوسرے کردار۔''وقت'' کا عرفان' میری شاعری کی پہچان کا وسیلہ بن سکتا ہے لیکن اس راکھ میں وہ چنگاری چھپی ہوئی ضرور ہے جس کی تلاش دیدہ بینا کے لئے مشکل نہیں۔''
دھوپ کا احساس جانے کیوں اسے ہوتا نہیں
وقت آوارہ ہے ، ٹھنڈی چھاؤں میں سوتا نہیں
''زینہ زینہ راکھ'' میں کُل 56 نثری وآزاد نظموں شامل ہیں۔ نظموں کی فروانی کے سبب ابتدأ میں انھیںنظم گو شاعر کی حیثیت سے پہچان ملی۔اس مجموعے میںمحض مٹھی بھرغزلوں کے باوجود ان کی نظموں میں پیکر تراشی کے عمل، جدید علامتی اسلوب ، فکر کی گہرائی میں ڈوباطرزِ اظہار، غیر مانوس علامتوں و تراکیب میں ڈوبا ہوا لہجہ انھیں ابھرتے شعرأ کی بھیڑ میں انفرادیت بخشنے میں بڑی حد تک ممد و معاون رہا۔
اپنی دوسری تصنیف ''دھوپ، دیواریں، سمندر، آئینہ'' میں 'انتساب ' کے تحت انھوں نے لکھا ہے ''حیدرآباد لٹریری فورم(حلف)کے نام - جو میرا خواب بھی ہے اور تعبیر بھی'' جبکہ کتاب معنون کی گئی ہے ''نئی نسل کے نام - جس کے شعری ذوق پر مجھے بھرپور اعتماد ہے''۔
غیاث متین کے ہم عصر و قریبی رفیق رؤف خلش ''حلف '' اور اپنی نصف صدی کی رفاقت کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میںیوں رقم طراز ہیں:
''1975ء میں قائم کردہ ادبی انجمن''حیدرآباد لٹریری فورم'' ایک ایسی انجمن تھی جو غیاث کی طاقت بھی تھی اور کمزوری بھی۔غیاث جس کا بانی رکن، معتمد اور آخری وقت تک صدر بھی تھا۔اپنے نام کے اعتبار سے اس میں بھر پور متانت تھی لیکن حسِ مزاح بھی بلا کی تھی۔اُس کی شخصیت سنجیدگی اور بذلہ سنجی کا مجموعہ تھی۔ اُس کے اندر اپنے زخموں کو چھپانے کی پرانی عادت تھی۔زمانے کے زخم، درد و الم کے زخم، اپنوں اور پرایوں کے زخم۔ اُس کے مزاج میں برداشت کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ لیکن وہ دو ٹوک بھی تھا۔منہ پر کہہ دیتا۔اُس نے اپنی ابتدائی زندگی نہایت ہی تگ و دو اور محنت میں گذاری تھی اور پرائمری اسکول ٹیچر سے یونیورسٹی کے پروفیسر تک پہنچا۔
میں اکثر تخلیقی اور غیر تخلیقی فن کے لئے انگریزی کی دو اصطلاحیں Creation اور Productionاستعمال کرتا ہوں۔ لیکن غیاث کی نظر میں ان کے لئے دو اور اصطلاحیں تھیں:Art اور Craft: چنانچہ وہ مشاعروں میں تُک بندی اور قافیہ پیمائی کرنے والے شاعروں کو دیکھ کر کہتا تھا کہ پیارے آؤ !کچھ دیر کرافٹنگ کرنے والوں کی بھی سُن لیں۔''
دسمبر 93ء میں شائع شدہ دوسرے مجموعے میں جہاں (38) غزلوں کو جگہ دی گئی ہے وہیں محض(16)نظمیں شامل ہیں۔ ابتدأ میں نظم گو شاعر کی پہچان کے حوالے سے پیش لفظ بعنوان''عکسِ خیال'' کے تحت وہ رقمطراز ہیں:
1980ء کے بعد شعوری یا لاشعوری طور پر میں نے غزل کی جانب توجہ کی۔ غزل جو ایک جادوئی صنف ہے، اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتی ہے۔'جدید غزل' نے پچھلی ربع صدی کے دوران جس طرح اپنے آپ کو منوایا ہے ' اس طرح پوری اردو شاعری کی تاریخ میں کسی اور صنف نے اپنے آپ کو نہیں منوایا ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ' غزل کی اندرونی ہئیت میں تبدیلی ہے جس میں اظہار کے اسلوب ' استعاراتی اور علامتی انداز بیان' نئے الفاظ اور تراکیب کی شمولیت' نئی زبان کی تخلیق ' روزمرہ واقعات اور مسائل کا تخلیقی اظہار ' سبھی کچھ شامل ہے ۔ اپنے ہمعصر جدید غزل گو شعراء کی طرح میں نے بھی غزل کی اندرونی ہئیت کو بدلنے کی کوشش کی ہے ۔''
اپنے لہجے کی یہی پہچان ہے
دھوپ، دیواریں، سمندر، آئینہ
آگے رقمطراز ہیں: ''میری شاعری میں لفظ کو اس کے لغوی اور اکہرے معنی میں استعمال کرنے کے بجائے اسے علامت اور استعارے کے طور برتنے کا عمل آپ کو ملے گا '' دھوپ ' دیواریں ' سمندر ' آئینہ '' صرف چار لفظوں پر مشتمل ایک مصرعہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ اپنی جگہ مکمل استعارے اور علامتیں ہیں ' جن کا ہمارے تمدن کی تاریخ سے راست تعلق ہے ۔ گویا یہ استعارے اور علامتیں اپنے تمدن کی تاریخ کا مظہر ہیں ۔ ان کلیدی استعاروں اور علامتوں کے علاوہ ' میری شاعری میں ' موسم ' پرندے ' دریا ' شجر ' ثمر ' جگنو ' رات ' شام ' چراغ' کاغذ' پتھر ' شاخ ' پھول ' پتے ' پھل ' تنہائی ' دہلیز ' گھرا ور ایسے ہی دیگر الفاظ کہیں انفرادی اور اجتماعی لاشعور کے علائم ہیں ۔میں نے اس مجموعے کی ابتدائی چند غزلوں میں استعاروں اور علامتوں ہی کو ردیف بنانے کا تجربہ کیا ہے ۔ یہ تجربہ کوئی نیا نہیں ہے ۔ اساتذہ اور خاص طور پر جدید شعراء کے ہاں اس طرح کے نمونے ہمیں مل جاتے ہیں ۔ لیکن اتنی بڑی تعداد میں کسی ایک شعری مجموعے میں اس طرح کی ردائف کا استعمال شائد پہلی بار ہوا ہے۔''
لہجے کو پھول ' لفظ کو جُگنو ' اگر کریں
وقتِ رَواں کے ساتھ معانی ' سفر کریں
موسم ' پرندے ' دھوپ کی دیوار ' شب چراغ
قصہ طویل ہونے لگا ' مختصر کریں
آئینہ بن کے بات کرتی دھوپ
دِل کی دیوار پر برستی دھوپ
اکیلا گھر ہے ' کیوں رہتے ہو ' کیا دیتی ہیں دیواریں
یہاں تو ہنسنے والوں کو ' رُلادیتی ہیں دیواریں
چڑھتے ہوئے دریا ہوں کہ سوکھی ہوئی نہریں
رکھتے ہیں تِرے سر ' سبھی الزام ' سمندر
عکس جس کو تم سمجھتے ہو متینؔ
آئینے کے بھی ہے اندر آئینہ
کیوں کسی کو ڈھونڈتے ہو ، ہاتھ میں لے کر چراغ
اب کہاں وہ گاؤں ، ہوتے تھے جہاںگھر گھر چراغ
غیاث متین کے ہاں مختصر بحروں میں بھی بڑی تعداد میں غزلیں ملتی ہیں:
ٹوٹنا اپنے دل کا یاد آیا
آئینہ ٹوٹ کر بکھرتے ہی !
چلتے پھرتے منظروں کا سلسلہ
آئینہ ، درِ آئینہ ، درِ آئینہ
ہم سے کیا پوچھتے ہو کیا ہے رات
اس کی باتوں کا سلسلہ ہے رات
اسی سے دل کی سیرابی ہے لوگوں
نکل کر آنکھ سے دریا نہ جائے
بڑی دھوپ تھی گھر کے باہر متینؔ
مگر ، وہ شجر آسرا دے گیا
دل جلا پھر ، چراغ جلتے ہی
اپنے دکھ بھی ہیں شام جیسے ہی
نظم کے حوالے سے اسی مجموعہ ہائے کلام کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں: ''جہاں تک نظم کا سوال ہے ' نظم اپنی ایک شناخت بلکہ شخصیت رکھتی ہے ۔ جس کی تشکیل موضوع اور ہئیت کی ہم آہنگی سے ہوتی ہے ۔ اس مجموعے میں شامل اپنی نظموں میں میرا تخلیقی عمل پیکر کی تجسیم ہے ۔ کوشش میں نے یہی کی ہے کہ موضوع اور ہئیت میں ہم آہنگی پیدا کرسکوں۔ اس مجموعے میں شامل اپنی نظموں میں میرا تخلیقی عمل پیکر کی تجسیم ہے ۔ کوشش میں نے یہی کی ہے کہ موضوع اور ہئیت میں ہم آہنگی پیدا کرسکوں ۔ ''
اس مجموعے میں شامل تمام 16نظمیں طویل اور بیانیہ ہیںاور جن میں سے بیشتر خودکلامی کا عنصر لی ہوئی ہیں۔نظم بعنوان ''وقت'' کے آخری دو بند متاثر کن ہیں:
ازل اور ابد کے کنارے بھی / اک واہمہ ہیں / حقیقت تو یہ ہے / ازل اور ابد سے پرے / وقت کا دائرہ ہے
وہ دیروز کی شام / کب لوٹ کر آسکی ہے / نظر جس کی امروز و فردا کے چہروں پہ مرکوز ہے / وہی اس سفر میں افق زاد ہے !
مجموعے میں بارہ بندوں پر مشتمل آخری نظم بعنوان '' زمین والوں کے نام'' ہے۔جس کے آخری چار بند ملاحظہ ہوں:
چراغ اندر چراغ : تم ہو / کتاب اندر کتاب : تم ہو / سوال اندر سوال : تم ہو / جواب اندر جواب : تم ہو / خدا نے روز ازل، / جو دیکھا تھا خواب : تم ہو
تمھیں سے عزت، / تمہیں سے نکہت، / تمہیں سے شہرت، / زمین کی ہے
بچا سکو تو / اسے بچا لو
زمین والو / زمین والو !
شہر دکن حیدرآباد میں جدیدیت بطور خاص حیدرآباد لٹریری فورم سے وابستہ ادیب و شعرأ کے تعلق سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تقریباً سبھی نے اپنی تخلیقات میںمقدار کے مقابل معیار کوترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً سبھی کے دو یا تین مجموعہ ہائے کلام ہی شائع ہوئے۔ غیاث متین کے ہاں 1994-2007 تک کی تخلیقات ہنوز اشاعت کی متقاضی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے دونوں فرزنداں و شاگردوں میں سے کوئی آگے آئے اور غیاث متین کاباقی ماندہ کلام جو کوئی (14) سال کے عرصے پر محیط ہے، اکٹھا کرکے شعری مجموعے کی شکل میں شائع کروائے۔بقول غیاث متینؔ:
میں نے چپکے سے کہی ، اک بات اس کے کان میں
اس نے اپنے ہاتھ سے گل کردیا ہنس کر چراغ !
Hyderabad se baland huai jadeed sheri awaz ko gair urdu daan tak pahunchanye ka fareza takmil ko pahunch mubarak baad qanool kejye
جواب دیںحذف کریں