سفر - Ghyas Mateen | غیاث متین | Urdu_Poetry | Ghazals | Nazms | Official website

2018-08-07

سفر

سفر ہی میری آس ہے
کیوں کہ
کھڑکیوں سے شاعری
بہتی ہے
سرحد پار کرتے ہی
خواب جاگ اٹھتے ہیں
جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں
دل پیچھے کی طرف دوڑتا ہے

دُور پہاڑوں سے
آنچل لہراتے ہوے بادل
پاس آتے ہیں
جھگیوں میں بنی ہوٹلوں سے
جوانی پھوٹ پڑتی ہے
غنودگی کے گوند سے
پلکیں چپک جاتی ہیں

نیند اور جاگنے کے درمیان
تار پر
ایک پیر سے چلنے والا شعور ۔ ۔ ۔ ۔

کڑی دھوپ سے
اوک بھر پسینے کی بوندیں
نظمیں اور نظمیں
بے انتہا اور ان گنت مناظر
کھڑکی کے فریم میں سما جاتے ہیں
پوری بس شاعری میں بدل جاتی ہے
خواب بھونرے بن جاتے ہیں
لمحہ لمحہ پھیلتی کائنات میں
خود غرضی غائب ہوجاتی ہے
پہیوں کی رگڑ سے
بریک چیخ اٹھتے ہیں
پیروں کے نیچے جانیں نہیں بچتیں
خواب برچھی کی نوک پر لٹک جاتے ہیں
سڑک پر جان کا سمندر بکھر جاتا ہے
آخر کار ، جب جان کے پرندے کو
آنکھوں میں پناہ نہیں ملتی
تو وہ انکھیوں کی کوڑیوں کو چھوڑکر
اُڑجاتا ہے
خواب دیکھنے کی وجہ سے
آنکھیں پچھتاتی ہیں


نظمیں جو سبز ہنسی ، ہنستی تھیں
سرجھکائے کھڑی ہیں
کم روشن بادل
بلک بلک کر روتے ہیں

جھگی کی ہوٹل میں
جوانی کی ساڑی سے لپٹی موت
باڑھ کی طرح لٹکتی ہے
آگے بڑھتا ہے نہ پیچھے
ساکت کبوتر ،
پر، ہوتے ہوے بھی
اُڑ نہیں سکتا
نظموں سے خالی پڑی وہ بس،
بھوت بنگلہ سی رہ جاتی ہے !

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں