پروفیسر این۔ گوپی تلگو دُنیا کے صفِ اول کے منفرد شاعر ہیں۔ اب تک ان کی شاعری کے گیارہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ ان کے ایک شعری مجموعے "وقت کو سونے نہیں دوں گا" پر انہیں 2000 میں مرکزی ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
این ۔ گوپی نے تلگو شاعری میں ہائیکو کی طرز کے ایک فارم (Form) نانیلو Na-Neelu (ننھے مکتک سہ سطری نظمیں) کو متعارف کروایا۔ ان کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے ، تلگو زبان میں کوئی تیس 03 کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔
پروفیسر این۔ گوپی 1999 سے 2001 تک پوٹی ۔ سری ۔ راملو تلگو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز رہے۔ اِن دنوں عثمانیہ یونیورسٹی میں ڈین فیکلٹی آرٹس کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ این۔ گوپی ایک محقق اور نقاد کی حیثیت سے بھی بلند مقام رکھتے ہیں۔ تلگو کے نامور شاعر "ویمنا" (Vemana) پر ان کا پی ایچ۔ ڈی کا ریسرچ ورک بڑا معیاری مانا جاتا ہے ۔ ان کے تنقیدی مضامین کے تین مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ این ۔ گوپی تلگو کے سہ ماہی تحقیقی جریدے "تلگو پری سودھنا" کے بانی ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ اس جریدے نے تلگو زبان کے علمی اور ادبی حلقوں میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کردی ہے ۔
گوپی ایک بے حد حسّاس شاعر ہیں۔ ان کے ہاں اپنے عصر کی آگہی کا بھرپور شعور ملتا ہے۔ گوپی کا نظریہ ¿ حیات انسانیت اور آفاقی قدروں سے عبارت ہے ۔ ان کی سوچ کا دائرہ وسیع اور وژن (Vision) افقی سمت کی نشان دہی کرتا ہے ۔ گوپی کی نظمیں موقتی نہیں ، ان میں ایک مدّت تک یاد رہ جانے والی کیفیت کا اظہار ہے ۔ ان کا طرزِ اظہار سادہ اور کہیں کہیں علامتی ہے ۔ ان کی بعض نظموں میں دیہی ماحول سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ موضوعات اور عنوانات دیکھنے میں عام سے لگتے ہیں لیکن ان کے پیچھے گہرا سماجی شعور جھلکتا ہے ۔ ان کا اصل ہنر اور فن ان موضوعات کے Treatment میں پوشیدہ ہے ۔ ان کے لہجے میں جہاں تہاں تلخی ضرور ہے لیکن ترشی نہیں ۔ یہی ان کی شاعری کا سب سے بڑا وصف ہے ۔ ان کی ایک طویل نظم "نغمۂ آب" (Jal Geetam)کا اب تک ہندی ، انگریزی ، ملیالم ، مراٹھی ،گجراتی اور اُردو میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ یہ اعزاز اب تک کسی اور تلگو شاعر کو نصیب نہ ہوسکا ۔
گوپی نے تلگو زبان کے نمائندہ شاعر کی حیثیت سے دُنیا کے مختلف ممالک جیسے امریکہ ، انگلینڈ ، سائپرس ، موریشس کا سفر کیا اور وہاں کی کانفرنسوں میں اپنی زبان کی کامیاب نمائندگی بھی کی۔ سفر سے ان کے وژن میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ واپسی پر انھوں نے سفر نامے بھی لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔
گوپی کی شاعری میں اکثر "وقفوں"(Pauses) کا استعمال بھی نہایت خوبی سے ہوا ہے۔ ان وقفوں کو قاری باآسانی پُر کرسکتا ہے ۔ ان کی شاعری "اظہاریت" (Expressionism) کی اچھی مثال پیش کرتی ہے ۔ انگریزی کے شاعر تھامس دیلان) (Thomas Dylan کا اثر بھی ان کی بعض نظموں پر محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ان کی نظموں کا آغاز بڑا پر کشش ہوتا ہے جو پڑھنے والے کی توجہ فوری طورپر اپنی جانب مبذول کروالیتا ہے ۔ بہ قول مضطر مجاز گوپی کی شاعری Profound Poetry کی تعریف پر پوری اُترتی ہے ۔ ان کی اکثر نظمیں سفر کے دوران یا واپسی پر ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن نظموں میں ایسی روانی ہے جیسے کوئی ٹرین میں سفر کررہا ہو۔ گوپی اکثر چھوٹی چھوٹی اور غیر اہم چیزوں کو لے کر شاعرانہ حُسن کاری کے ساتھ انھیں Elaborate کرتے اور اظہار کا پیرہن بخشتے ہیں ۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی واقعی شاعر ہے تو غیر شاعرانہ موضوعات کو لے کر بھی اچھی شاعری کرسکتا ہے ۔
گوپی کی سو نظموں کے مترجم کی حیثیت سے میں یہ کہنے کی جسارت کررہا ہوں کہ میں نے تلگو زبان اور اس کی شاعری کی روح کو اپنی گرفت میں لانے کی کوشش کی ہے ۔ جب گوپی کی نظموں نے مجھے Inspire کیا تو خود شاعر کی مدد سے کوئی ڈیڑھ دو برس کی مسلسل کوشش کے بعد جو تقریباً روزآنہ یا کبھی وقفے وقفے سے کئی نشستوں میں جاری رہی، میں یہ ترجمہ مکمل کرپایا ۔ اس سے پہلے ہم دونوں نے مل کر ان کے گیارہ شعری مجموعوں سے سو نظموں کا انتخاب کیا جو مختلف النوع موضوعات پر مبنی ان کی نمائندہ نظمیں کہلائی جاسکتی ہیں ۔ مقصد صرف یہ تھا کہ جب یہ نظمیں ترجمہ کے ذریعہ اُردو زبان کے قالب میں ڈھالی جائیں تو شاعر کا شعری مزاج اور اس کا انفرادی کارنامہ اُردو قارئین کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ اس انتخاب میں خود شاعر کی پسند کا بھی دخل تھا ۔ ہر نظم کا ترجمہ یوں تو ایک ہی نشست میں مکمل ہوتا لیکن اس کے بعد مسلسل غور و فکر کے ذریعہ صحیح الفاظ کی نشست و برخاست کا التزام ، کانٹ چھانٹ ، موزونیت ، اصطلاحات کا متبادل ، غرض یہ کہ خوب سے خوب تر کی تلاش اور شاعر کے مافی الضمیر سے ترجمہ کو قریب تر کرنے کا عمل مسلسل جاری رہا۔ یہ ترجمہ لفظی ہرگز نہیں بلکہ اسے شاعر کے خیال کی تجسیم کا نام دیا جاسکتا ہے ۔
اُردو زبان اور اُس کی شعری روایات میں اتنی طاقت اور توانائی ہے کہ وہ کسی بھی زبان کی شاعری کو اپنے قالب میں ڈھالنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا کی تمام اہم زبانوں کی شاعری ترجمہ ہی کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے ۔ ترجمہ کے حوالے سے ہماری زبان میں تاریخی روایات کا عظیم سلسلہ موجود ہے ۔ اُردو شاعری کے جن جدید شعراءکا میں نے مطالعہ کیا ہے اور ان کے Form اور شعری ٹیکنک سے آگہی حاصل کی ہے اسی بناءپر یہ کہنے کے موقف میں ہوں کہ گوپی کے شعری مزاج اور ان کے فارم کو غیر معمولی طورپر ان جدید شعراءسے قریب پاتا ہوں حالانکہ انھوں نے جدید اُردو نظم گو شعراءکا مطالعہ نہیں کیا ہے ۔ یہ حیرت انگیز مماثلت ہی وہ وصف ہے جس نے مجھے ان کی نظموں کا ترجمہ کرنے پر اُکسایا ۔ اس کے علاوہ گوپی سے میرے پچیس سالہ گہرے دوستانہ مراسم کا تقاضہ بھی تھا کہ میں اس شاعر کی فکر اور اس کے تخلیقی اظہار کو اُردو داں قارئین سے متعارف کرواو ¿ں ۔
مختصر یہ کہ گوپی کی یہ نظمیں اپنی ہمہ رنگی صفات ، آفاقی نقطہ ¿ نظر ، خیال کی جدّت طرازی، اظہار کی تازگی ، گہرے سماجی اور معاشرتی تصور کی عکّاسی ،مختلف النوع موضوعات کی بوقلمونی، انسان اور انسانیت کی فتح مندی، جنگ سے نفرت اور امن و آشتی کی پیغام رسانی جیسی اہم خصوصیات کی وجہ سے اُردو قاری و دیگر زبانوں کے قارئین کے لیے بھی اپنے اندر غیر معمولی کشش اور جاذبیت رکھتی ہیں۔ اپنی بات کو دہراتے ہوے آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ لفظی ترجمہ نہیں بلکہ باز تخلیق کی صورت میں "خیال" سے "خیال" ہی کا ترجمہ ہے ۔
اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں اس کا فیصلہ تو اس کتاب کے پڑھنے والے ہی کریں گے ۔ اس مجموعے کی نظموں میں سے بعض نظمیں ماہ نامہ " سب رس" ششماہی "شعر و حکمت" اور روزنامہ "منصف" کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوچکی ہیںو نیز "شعر وحکمت" نے گوپی پر ایک گوشہ بھی شائع کیا تھا جس کے لیے میں ان کے مدیران اور مرتبین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ممتاز شاعر اور اقبالشناس محترم مضطر مجاز نے ان نظموں کی سماعت کے بعد مجھے اپنے مفید مشوروں سے نوازا، میرے تلگو داں دوست جناب غلام ربانی نے بھی تلگو کی بعض اصطلاحات کا ترجمہ کرنے میں میری مدد کی ، میں ان دونوں کا تہہ دِل سے شکرگزار ہوں۔ گوپی کی بیگم ارونا میڈم جو خود بھی تلگو کی ابھرتی ہوئی شاعرہ ہیں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھو ںنے ہماری نشستوں کے دوران اپنی خاطرتواضع سے ہمارے کام میں آسانی پیدا کی ۔ میرے عزیز شاگرد محمد ذکی الدین لیاقت نے اس کتاب کی اشاعت میں شروع سے آخر تک جس جانفشانی سے میرا ہاتھ بٹایا اور اسے پایہ ¿ تکمیل تک پہنچایا، اس کے لیے میں شکر گزاری کے ساتھ ساتھ ان کے حق میں دُعاگو ہوں ۔ اُمید کہ یہ کتاب اُردو داں قارئین کو شاعری کے ایک نئے افق سے آشنا کرے گی ۔
غیاث متین
(سابق صدر شعبۂ اُردو ، عثمانیہ یونیورسٹی)
ماخوذ:
مقدمہ 'گوپی کی سو نظمیں'
این ۔ گوپی نے تلگو شاعری میں ہائیکو کی طرز کے ایک فارم (Form) نانیلو Na-Neelu (ننھے مکتک سہ سطری نظمیں) کو متعارف کروایا۔ ان کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے ، تلگو زبان میں کوئی تیس 03 کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔
پروفیسر این۔ گوپی 1999 سے 2001 تک پوٹی ۔ سری ۔ راملو تلگو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز رہے۔ اِن دنوں عثمانیہ یونیورسٹی میں ڈین فیکلٹی آرٹس کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ این۔ گوپی ایک محقق اور نقاد کی حیثیت سے بھی بلند مقام رکھتے ہیں۔ تلگو کے نامور شاعر "ویمنا" (Vemana) پر ان کا پی ایچ۔ ڈی کا ریسرچ ورک بڑا معیاری مانا جاتا ہے ۔ ان کے تنقیدی مضامین کے تین مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ این ۔ گوپی تلگو کے سہ ماہی تحقیقی جریدے "تلگو پری سودھنا" کے بانی ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ اس جریدے نے تلگو زبان کے علمی اور ادبی حلقوں میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کردی ہے ۔
گوپی ایک بے حد حسّاس شاعر ہیں۔ ان کے ہاں اپنے عصر کی آگہی کا بھرپور شعور ملتا ہے۔ گوپی کا نظریہ ¿ حیات انسانیت اور آفاقی قدروں سے عبارت ہے ۔ ان کی سوچ کا دائرہ وسیع اور وژن (Vision) افقی سمت کی نشان دہی کرتا ہے ۔ گوپی کی نظمیں موقتی نہیں ، ان میں ایک مدّت تک یاد رہ جانے والی کیفیت کا اظہار ہے ۔ ان کا طرزِ اظہار سادہ اور کہیں کہیں علامتی ہے ۔ ان کی بعض نظموں میں دیہی ماحول سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ موضوعات اور عنوانات دیکھنے میں عام سے لگتے ہیں لیکن ان کے پیچھے گہرا سماجی شعور جھلکتا ہے ۔ ان کا اصل ہنر اور فن ان موضوعات کے Treatment میں پوشیدہ ہے ۔ ان کے لہجے میں جہاں تہاں تلخی ضرور ہے لیکن ترشی نہیں ۔ یہی ان کی شاعری کا سب سے بڑا وصف ہے ۔ ان کی ایک طویل نظم "نغمۂ آب" (Jal Geetam)کا اب تک ہندی ، انگریزی ، ملیالم ، مراٹھی ،گجراتی اور اُردو میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ یہ اعزاز اب تک کسی اور تلگو شاعر کو نصیب نہ ہوسکا ۔
گوپی نے تلگو زبان کے نمائندہ شاعر کی حیثیت سے دُنیا کے مختلف ممالک جیسے امریکہ ، انگلینڈ ، سائپرس ، موریشس کا سفر کیا اور وہاں کی کانفرنسوں میں اپنی زبان کی کامیاب نمائندگی بھی کی۔ سفر سے ان کے وژن میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ واپسی پر انھوں نے سفر نامے بھی لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔
گوپی کی شاعری میں اکثر "وقفوں"(Pauses) کا استعمال بھی نہایت خوبی سے ہوا ہے۔ ان وقفوں کو قاری باآسانی پُر کرسکتا ہے ۔ ان کی شاعری "اظہاریت" (Expressionism) کی اچھی مثال پیش کرتی ہے ۔ انگریزی کے شاعر تھامس دیلان) (Thomas Dylan کا اثر بھی ان کی بعض نظموں پر محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ان کی نظموں کا آغاز بڑا پر کشش ہوتا ہے جو پڑھنے والے کی توجہ فوری طورپر اپنی جانب مبذول کروالیتا ہے ۔ بہ قول مضطر مجاز گوپی کی شاعری Profound Poetry کی تعریف پر پوری اُترتی ہے ۔ ان کی اکثر نظمیں سفر کے دوران یا واپسی پر ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن نظموں میں ایسی روانی ہے جیسے کوئی ٹرین میں سفر کررہا ہو۔ گوپی اکثر چھوٹی چھوٹی اور غیر اہم چیزوں کو لے کر شاعرانہ حُسن کاری کے ساتھ انھیں Elaborate کرتے اور اظہار کا پیرہن بخشتے ہیں ۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی واقعی شاعر ہے تو غیر شاعرانہ موضوعات کو لے کر بھی اچھی شاعری کرسکتا ہے ۔
گوپی کی سو نظموں کے مترجم کی حیثیت سے میں یہ کہنے کی جسارت کررہا ہوں کہ میں نے تلگو زبان اور اس کی شاعری کی روح کو اپنی گرفت میں لانے کی کوشش کی ہے ۔ جب گوپی کی نظموں نے مجھے Inspire کیا تو خود شاعر کی مدد سے کوئی ڈیڑھ دو برس کی مسلسل کوشش کے بعد جو تقریباً روزآنہ یا کبھی وقفے وقفے سے کئی نشستوں میں جاری رہی، میں یہ ترجمہ مکمل کرپایا ۔ اس سے پہلے ہم دونوں نے مل کر ان کے گیارہ شعری مجموعوں سے سو نظموں کا انتخاب کیا جو مختلف النوع موضوعات پر مبنی ان کی نمائندہ نظمیں کہلائی جاسکتی ہیں ۔ مقصد صرف یہ تھا کہ جب یہ نظمیں ترجمہ کے ذریعہ اُردو زبان کے قالب میں ڈھالی جائیں تو شاعر کا شعری مزاج اور اس کا انفرادی کارنامہ اُردو قارئین کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ اس انتخاب میں خود شاعر کی پسند کا بھی دخل تھا ۔ ہر نظم کا ترجمہ یوں تو ایک ہی نشست میں مکمل ہوتا لیکن اس کے بعد مسلسل غور و فکر کے ذریعہ صحیح الفاظ کی نشست و برخاست کا التزام ، کانٹ چھانٹ ، موزونیت ، اصطلاحات کا متبادل ، غرض یہ کہ خوب سے خوب تر کی تلاش اور شاعر کے مافی الضمیر سے ترجمہ کو قریب تر کرنے کا عمل مسلسل جاری رہا۔ یہ ترجمہ لفظی ہرگز نہیں بلکہ اسے شاعر کے خیال کی تجسیم کا نام دیا جاسکتا ہے ۔
اُردو زبان اور اُس کی شعری روایات میں اتنی طاقت اور توانائی ہے کہ وہ کسی بھی زبان کی شاعری کو اپنے قالب میں ڈھالنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا کی تمام اہم زبانوں کی شاعری ترجمہ ہی کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے ۔ ترجمہ کے حوالے سے ہماری زبان میں تاریخی روایات کا عظیم سلسلہ موجود ہے ۔ اُردو شاعری کے جن جدید شعراءکا میں نے مطالعہ کیا ہے اور ان کے Form اور شعری ٹیکنک سے آگہی حاصل کی ہے اسی بناءپر یہ کہنے کے موقف میں ہوں کہ گوپی کے شعری مزاج اور ان کے فارم کو غیر معمولی طورپر ان جدید شعراءسے قریب پاتا ہوں حالانکہ انھوں نے جدید اُردو نظم گو شعراءکا مطالعہ نہیں کیا ہے ۔ یہ حیرت انگیز مماثلت ہی وہ وصف ہے جس نے مجھے ان کی نظموں کا ترجمہ کرنے پر اُکسایا ۔ اس کے علاوہ گوپی سے میرے پچیس سالہ گہرے دوستانہ مراسم کا تقاضہ بھی تھا کہ میں اس شاعر کی فکر اور اس کے تخلیقی اظہار کو اُردو داں قارئین سے متعارف کرواو ¿ں ۔
مختصر یہ کہ گوپی کی یہ نظمیں اپنی ہمہ رنگی صفات ، آفاقی نقطہ ¿ نظر ، خیال کی جدّت طرازی، اظہار کی تازگی ، گہرے سماجی اور معاشرتی تصور کی عکّاسی ،مختلف النوع موضوعات کی بوقلمونی، انسان اور انسانیت کی فتح مندی، جنگ سے نفرت اور امن و آشتی کی پیغام رسانی جیسی اہم خصوصیات کی وجہ سے اُردو قاری و دیگر زبانوں کے قارئین کے لیے بھی اپنے اندر غیر معمولی کشش اور جاذبیت رکھتی ہیں۔ اپنی بات کو دہراتے ہوے آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ لفظی ترجمہ نہیں بلکہ باز تخلیق کی صورت میں "خیال" سے "خیال" ہی کا ترجمہ ہے ۔
اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں اس کا فیصلہ تو اس کتاب کے پڑھنے والے ہی کریں گے ۔ اس مجموعے کی نظموں میں سے بعض نظمیں ماہ نامہ " سب رس" ششماہی "شعر و حکمت" اور روزنامہ "منصف" کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوچکی ہیںو نیز "شعر وحکمت" نے گوپی پر ایک گوشہ بھی شائع کیا تھا جس کے لیے میں ان کے مدیران اور مرتبین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ممتاز شاعر اور اقبالشناس محترم مضطر مجاز نے ان نظموں کی سماعت کے بعد مجھے اپنے مفید مشوروں سے نوازا، میرے تلگو داں دوست جناب غلام ربانی نے بھی تلگو کی بعض اصطلاحات کا ترجمہ کرنے میں میری مدد کی ، میں ان دونوں کا تہہ دِل سے شکرگزار ہوں۔ گوپی کی بیگم ارونا میڈم جو خود بھی تلگو کی ابھرتی ہوئی شاعرہ ہیں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھو ںنے ہماری نشستوں کے دوران اپنی خاطرتواضع سے ہمارے کام میں آسانی پیدا کی ۔ میرے عزیز شاگرد محمد ذکی الدین لیاقت نے اس کتاب کی اشاعت میں شروع سے آخر تک جس جانفشانی سے میرا ہاتھ بٹایا اور اسے پایہ ¿ تکمیل تک پہنچایا، اس کے لیے میں شکر گزاری کے ساتھ ساتھ ان کے حق میں دُعاگو ہوں ۔ اُمید کہ یہ کتاب اُردو داں قارئین کو شاعری کے ایک نئے افق سے آشنا کرے گی ۔
غیاث متین
(سابق صدر شعبۂ اُردو ، عثمانیہ یونیورسٹی)
ماخوذ:
مقدمہ 'گوپی کی سو نظمیں'
گوپی کی نظمیں یہ کتاب کہاں سے مل سکے گی؟
جواب دیںحذف کریں