دانہ - Ghyas Mateen | غیاث متین | Urdu_Poetry | Ghazals | Nazms | Official website

2018-09-01

دانہ

daana

کھاتے وقت ،
نوالے سے پھسل کر،
ایک دانہ
تھالی کے باہر گرگیا
ہاتھوں کو آنکھ نہیں ،اس لیے
وہ غور نہیں کرتے
آنکھ میں بینائی ہے،
پھر بھی اس نے نہیں دیکھا،
مٹّی سے اگنے والا دانہ
مٹّی میں مل گیا
دانے کی آہوں کو
سننے والے کان کہاں !
اُس کے دل پر کیا گزر رہی ہے
مجھے اچھی طرح معلوم ہے

دانہ کہہ رہا ہے ،
" تب بھی میں
انگلیوں سے ہی گر پڑا تھا
مگر بیج کے روپ میں ،
زمین کی اندھیری پرتوں میں

بغیر روپ کی جان بن کر
پودے کے پیٹ میں رینگ کر
دانہ بن کر
سرباہر نکال کر دیکھا تھا
خول کے لباس کا قیدی بن کر
رہائی کے لیے تپسّیا کی تھی
مُسّل کی مار سے
پیروں کو بچاکر ،
آسمان جیسی سفیدی سے
پیدا ہوا تھا میں
کسان کے گٹھے بھرے پسّوؤں میں
موتیوں کے ڈھیر کا حصّہ بن کر ، چمک اٹھا

چاول کے تھیلے میں
ٹھونسنے پر بھی
ٹوٹنے سے بچ گیا
اندھیرے کمروں میں
دَم گھٹنے کے باوجود
روشنی کو دیکھتے ہی
پُرانا درد بھول گیا
کتنی ہی دور کا سفر کیا
کتنے ہی ہاتھوں سے ہوکر آیا

اس عورت کے ہاتھ سے
پیار سے متھے جانے کے بعد
اَب
چولھے پر ،
کھانا بن گیا ہوں
پیٹ میں جاکر
کم از کم خون کی ایک بوندمیں اضافہ کرنے کی خواہش سے
جان کی طاقت بڑھانے کی تمنّا سے
جب دل مچل رہا تھا
ذراسی لاپروائی سے
میری زندگی کا پورا سفر ضائع ہوگیا "۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں